What happens on the first night in the grave?

Views: 7

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مومن دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کا سفر کرنے والا ہوتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں جن کے چہرے سورج کی طرح چمکتے ہیں۔ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو۔ یہ فرشتے اس قدر ہیں کہ جہاں تک وہ دیکھتا ہے فرشتے اس کے اردگرد بیٹھے نظر آتے ہیں اور حضرت ملاکول موت کی زیارت لاتے ہیں اور جا کر اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ کی پاکیزہ روح، بخشش اور خوشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ روح اس طرح آسانی سے نکلتی ہے۔ جس طرح مسجد سے پانی کا ایک قطرہ نکلتا ہے تو حضرت ملاکول اسے لے جاتے ہیں اور دوسرے فرشتے جو کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوتے ہیں وہ اسے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چھوڑتے اور اسے کفن اور خوشبو میں رکھتے ہوئے جنت میں لے جاتے ہیں۔ چلو اس خوشبو کی طرف بڑھتے ہیں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے۔ زمین پر جو بھی خوشبو ملی ہے، وہی خوشبو ہے، پھر فرمایا کہ فرشتے اسی روح کے ساتھ آسمان کی طرف جانے لگتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت میں بھی وہ گاتے ہیں، وہ کہتے ہیں، واہ، کیا خوب خوشبو ہے۔ وہ فرشتے جو میت کا نام لیتے ہیں اور اس کا تعارف تاجم اور تکریم سے کرتے ہیں۔

Story of Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam and a Camel

Picsart 24 06 29 14 07 02 222

Views: 21

حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہ انور کے پاس اس طرح کھڑا ہو گیا جیسے ہمارے کان میں کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اونٹ اگر سچے ہو تو سلامت رہ۔

پھر آپ کا رب آپ کو فائدہ دے گا کہ آپ جھوٹے ہیں تو آپ کو ہماری پناہ میں آئے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پناہ میں رکھے گا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی۔ السلام علیکم، یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ اونٹ کے مالکوں نے اسے مارنے اور کھانے کا ارادہ کیا تو وہ ان کے پاس سے بھاگ گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مدد طلب کی جب میں نے دیکھا کہ اس اونٹ کے مالک دوڑ پڑے وہ آ رہا ہے، دوبارہ سر سرہ مبارک کے پاس کھڑا ہونا اب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا،

اس کے مالکوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہمارا ہے، یہ تین دن سے ہم سے بھاگ رہا ہے اور آج ہم نے اسے آپ کی خدمت میں پایا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا وہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ برسوں پلا بڑھا ہے۔ جب موسم گرم ہوتا تو آپ گھاس اور چارہ لے کر اس پر سوار ہو جاتے اور جب موسم سرد ہو جاتا تو آپ اس پر سوار ہو کر گرم علاقوں کی طرف جاتے جب کہ اب یہ بوسیدہ ہونے کی عمر کو پہنچ چکا ہے تو آپ اسے پکڑ لیں گے۔

اور گوشت کھانے کا فیصلہ کر کے اس نے خدا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھائی۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ایک نیک بندے کے مالک کی طرف سے سزا ہے جس نے خدمت کی ہے، اب ہم اسے فروخت نہیں کریں گے اور نہ ہی کریں گے۔ اس کے بعد اسے نگل لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ چند درہم میں خریدا اور فرمایا کہ اے اونٹ تو اللہ کے لیے آزاد ہے اس اونٹ نے اپنا منہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی طرف لایا اور پھر آواز دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا، اس نے دوبارہ دعا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آمین کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دعا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آمین کہا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی بار دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو تھے۔ آنکھیں بہنے لگیں اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اٹھو، کیا کہہ رہے ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار کہا کہ اللہ آپ کو اسلام اور قرآن سے بہترین فیصلہ دے، میں نے کہا کہ اللہ آپ کی امت سے قیامت کے دن اسی طرح خوف دور کرے۔ جیسا کہ آپ نے اسے مجھ سے ہٹا دیا، پھر آپ نے دعا کی کہ اللہ آپ کی امت کے خون کو دشمنوں سے بچائے۔ اس لیے کہ میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا مانگی تھی، پہلی تین دعائیں قبول ہوئیں لیکن آخری دعا قبول نہیں ہوئی۔ جب جبرائیل علیہ السلام نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں لڑ کر فنا ہو جائے گی، جو کچھ ہونے والا ہے، قلم نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں لکھ دیا ہے۔ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) لکھا ہے کہ آج کے دور پر نظر ڈالی جائے تو بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان کیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں، کیسے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے تیار ہیں، فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن چکے ہیں، شاید کفار نے مسلمانوں کا اتنا نقصان نہیں کیا جتنا مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے۔ فرقہ واریت ختم کریں، ایک امت بنیں اور باہمی نفرتیں ختم کریں، مسلمان مسلمان بھائی ہیں، آپس میں پیار اور محبت رکھیں، اللہ ہم سب کو سمجھنے اور رحمدل ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Hazrat Umar (RA) Crying Due To The Advice Of An Old Woman

Picsart 24 07 12 09 31 26 397

Views: 43

ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چند ساتھیوں کے ساتھ ایک اہم کام پر جارہے تھے کہ راستے میں ایک بوڑھی عورت سے ملاقات ہوئی جس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا عمر! عمر انتظار کرو۔ تم کہاں پکڑے جا رہے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رک گئے اور بوڑھی عورت چھڑی کے سہارے سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی اے عمر! مجھ سے پہلے تم پر تین چکر گزر چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب آپ سخت گرمی کے موسم میں اونٹ چراتے تھے اور اونٹ بھی چرنے کے لیے نہیں آتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح سے شام تک چرتے رہتے تھے، پھر خطاب فرماتے تھے کہ آپ نے اونٹوں کو ٹھیک سے کیوں نہیں چرایا؟ ? اس کی بہن عمر سے کہتی تھی کہ عمر تم پھل نہیں لا سکتے، تو بوڑھی عورت نے کہا کہ تم اونٹ چراتے تھے اور تمہارے سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا اور ہاتھ میں پتے جھاڑنے کا ہینڈل تھا، دوسری بار۔ وہ لوگ آئے کہ میں آپ کو عمیر کہنے لگا کیونکہ ابوجہل کا نام بھی عمر تھا، اس کی طرف سے پابندی تھی کہ میرے نام پر کوئی نام نہ رکھا جائے، گھر والے آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام بدل کر عمیر کہنے لگے۔ غزوہ بدر 2 ہجری میں پیش آیا۔ اور اس میں ابوجہل مارا گیا، اس وقت تک اسے صرف عمیر کہا جاتا تھا۔ بوڑھی خاتون نے کہا کہ اب آپ کا دور ایسا ہے کہ اب آپ کو کوئی عمیر نہیں کہتا تھا اور نہ عمر، بلکہ آپ کو امیر المومنین کہتے ہیں، اس تمہید کے بعد بوڑھی خاتون نے کہا: امیر المومنین بننا آسان ہے لیکن مشکل ہے۔ جس کا حق ہے اس کا حق ادا کرنے کے لیے، حواری کل حقوق پر فخر کرے گا، لہٰذا ہر حق دار کا حق ادا کرو۔ عمر رضی اللہ عنہ قطار میں کھڑے رو رہے ہیں کہ ان کی داڑھی سے آنسو قطرہ قطرہ گر رہے ہیں۔ ساتھی جو اس کے ساتھ تھے انہوں نے بوڑھی عورت کو وہاں لے جانے کا اشارہ کیا۔ رونے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول بھی نہیں سکتے تھے، انہوں نے اشارے سے انکار کر دیا کہ وہ جو کہہ رہی ہیں، جب وہ چلی گئیں تو صحابہ میں سے کسی نے پوچھا: یہ بوڑھی عورت کون تھی؟ آپ کا اتنا وقت کیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر وہ ساری رات کھڑی رہتی تو عمر فجر کی نماز کے علاوہ یہاں سے ہلنے والا نہ تھا۔ یہ بی بی صاحبہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں جن کی باتیں ساتویں آسمان کے اوپر سے سنی گئیں اور حق تعالیٰ نے یہ کلمات کہے: ترجمہ:- بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سنی جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کا نام لے کر۔ وہ آگے جھانک رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عمر میں ایسی کیا ہمت تھی کہ جن کی باتیں ساتویں آسمان پر بھی سنائی دیں ان کو نہ سنیں۔ اسلام میں ایمانداری کی حیثیت اور مقصد، صفحہ 18، حضرت مولانا مفتی افتخار صاحب