Hazrat Muhammad ﷺ Ke Bachpan Ka Waqia

Picsart 24 07 12 09 56 22 301

Views: 85

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ۔

ایسا وقت ایک بار مکہ میں آیا۔ چاروں طرف خشک سالی تھی۔ اس وقت مکہ میں پانی کی قلت تھی۔ یعنی مکہ میں بارش نہیں ہو رہی تھی۔

اس وقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر صرف 9 سال تھی، مکہ میں یہ رواج تھا کہ اہل مکہ کوئی کام کرنا چاہتے تو ایک بڑا برتن لاتے اور اس میں جانور بھر دیتے۔ اسے خون سے بھرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور پھر اس خون سے بھرے برتن میں مکہ کے بڑے لوگ، بڑے بڑے سردار۔ جب مکہ میں بارشیں رک جاتیں تو وہ اپنا ہاتھ ڈبو کر کام مکمل کرنے کی قسم کھاتا۔ چنانچہ اہل مکہ نے ایک بڑا برتن منگوایا اور اس میں خون بھر دیا اور پھر اہل مکہ نے خون سے بھرے برتن میں اپنے ہاتھ ڈبوئے۔ اور قسمیں کھا کر کہنے لگے کہ مکہ میں پانی کی کمی ہے۔ ہمارے بچے مر رہے ہیں، ہمارے جانور مر رہے ہیں تو ہم سب قسم کھاتے ہیں۔ آج رات ہم سب کعبہ آئیں گے اور خانہ کعبہ کی دیوار کو تھامیں گے۔

اور اس وقت تک ہم دیوار کعبہ کو تھامے رہیں گے۔ جب تک بارشیں نہ آئیں، پانی نہ آیا تو ہم سب وہیں مر جائیں گے۔ لیکن خانہ کعبہ کی دیوار نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح مکہ کے بڑے لوگوں نے اس خون سے بھرے برتن میں ہاتھ ڈبو کر یہ بیعت کی۔ اور پھر سب نے فیصلہ کیا کہ آج آدھی رات کو کعبہ پہنچنا ہے۔ اور دیوارِ کعبہ کو تھام کر اوپر سے بارش کی مدد مانگنی پڑتی ہے۔ پانی مانگنا ہے۔

اب آدھی رات ہو چکی ہے۔ مکہ کے تمام بڑے لوگ جنہوں نے بیعت کی تھی کعبہ پہنچنے لگے۔ ان لوگوں نے یعنی خون سے بھرے برتن میں ہاتھ ڈبو کر حلف لیا۔ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی ان میں موجود تھے اب جیسے ہی آدھی رات ہوئی آپ کے چچا ابو طالب بھی گھر سے نکل کر کعبہ کی طرف جانے لگے۔ اس وقت اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر صرف 9 سال تھی جب آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو پکارتے ہوئے دیکھا۔

چنانچہ آپ اپنے چچا ابو طالب کے پاس گئے اور فرمایا چچا کہاں جارہے ہو؟ تو چچا جان کہنے لگے کہ اے میرے بھتیجے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارا مکہ خشک ہے، مکہ میں پانی کی قلت ہے، اسی لیے ہم سب نے اپنے ہاتھ خون میں رنگے ہیں اور قسم کھائی ہے کہ جب تک وہاں موجود نہیں ہوں گے۔ مکہ میں پانی، ہم دیوار کو پکڑ کر نہیں آئیں گے۔ بس یہ حلف پورا کرنے جا رہا ہوں۔ یہ سن کر اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عمر صرف 9 سال تھی اپنے چچا ابو طالب سے کہنے لگے یہ سن کر چچا نے کہا نہیں بیٹا نہیں۔ مکہ کے تمام بڑے لوگ وہاں جمع ہوں گے۔ اگر میں بچے کو اپنے ساتھ لے جاؤں تو وہ مجھے کیا کہیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ چچا جی ہاں مجھے اپنے ساتھ لے چلیں، اگر وہ لوگ مجھے وہاں رہنے دیں تو ٹھیک ہے، ورنہ میں وہاں سے واپس آ جاؤں گا۔

آپ کے چچا ابو طالب آپ سے بہت محبت کرتے تھے، آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، اس لیے ابو طالب آپ کو اپنے ساتھ لے جانے پر آمادہ ہوئے۔ اس طرح اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ خانہ کعبہ پہنچے۔ اب مکہ کے تمام بڑے لوگ کعبہ کے پاس جمع ہو گئے۔ مجموعی طور پر 32 افراد جمع ہوئے جنہوں نے خون سے بھرے برتن میں ہاتھ ڈبو کر حلف لیا۔

اب جب مکہ والوں کو اس بات کا علم ہوا تو مکہ کے بڑے لوگوں نے پانی لانے کی قسم کھائی۔ اور اس وقت دیوار مکہ کو پکڑے رہیں گے یہاں تک کہ پانی آجائے، یہ سن کر اہل مکہ بھی کعبہ کی طرف جانے لگے جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے سب شامل تھے۔

خانہ کعبہ کا پورا میدان لوگوں سے بھر گیا۔ حلف اٹھانے والے 32 افراد خانہ کعبہ کے بالکل قریب کھڑے تھے۔

ابو طالب کے ساتھ ان کے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کعبہ کے قریب کھڑے تھے۔ جب انہوں نے بچے کو اپنے پاس کھڑا دیکھا تو سب نے آنکھیں کھول کر ابو طالب کو دیکھنے لگے۔ اور فرمایا کہ ابو طالب اس بچے کو اپنے ساتھ کیوں لائے ہو کیا تم نہیں جانتے؟ ہم مکہ کے عظیم لوگ ہیں اور ہم سب نے خون میں ہاتھ دھو کر قسم کھائی ہے اس لیے بارش کی دعا مانگیں گے۔ اس بچے کا یہاں کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سن کر ابو طالب نے کہا اے میرے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جا کر پیچھے بیٹھ جا۔ یہ سن کر پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور بیٹھ گئے۔

Prophet Muhammad Story:——

اس کے بعد ان 32 میں سے 32 لوگوں نے خانہ کعبہ کی دیوار کو تھام لیا اور سب مل کر کہنے لگے کہ اے کعبہ کے خالق، پانی برسانے دو، یہ کرتے کرتے ساری رات گزر گئی اور صبح ہوئی لیکن پانی نہیں آیا۔ بارش نہیں ہوئی۔ صبح کے بعد سورج نکل آیا اور یہ لوگ پانی مانگتے رہے۔ وہ کہتے رہے کہ کعبہ کا خالق بارش کر دے لیکن پانی نہیں آیا۔ اب آسمان بھی گرم ہو گیا تھا، دن بھی جھلسنے لگا تھا۔ خانہ کعبہ کی دیواریں بھی گرم ہو چکی تھیں۔ لیکن 32 میں سے 32 لوگ پھر بھی پانی مانگ رہے تھے لیکن کہیں بھی پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اب چلچلاتی دھوپ میں سب پسینے میں بھیگ رہے تھے۔ ان میں سے کئی کو چکر آنے لگے اور گرنے لگے۔ اتنے میں پیچھے سے کوئی آیا اور ابو طالب کے کپڑے پکڑ لیے۔ جیسے ہی ابو طالب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کا بھتیجا محمد ان کے پاس کھڑا تھا اپنے بھتیجے کو اپنے قریب دیکھ کر ابو طالب غصے سے کہنے لگے۔

اے محمد تم یہاں کیوں آئے ہو؟ تو یہ سن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ چچا مجھے بھی آنے دو، میں آؤں گا اور اوپر سے پانی برسے گا۔ تو چچا ابو طالب نے غصے سے کہا ہم 32 لوگ جو مکہ کے بڑے لیڈر ہیں۔ ہم رات سے پانی مانگ رہے ہیں لیکن خدا نے بارش نہیں کی۔ اور آپ کی عمر 9 سال ہے؟ اور اوپر خدا سے پانی مانگو گے اور وہ پانی بھی برسائے گا، جاؤ۔ اور یہ سن کر اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد وہ 32 لوگ پھر پانی مانگنے لگے اور کہنے لگے اے خالق کعبہ۔ بارش ہونے دو۔
بارش کا پانی جو کعبہ کو جنم دے۔ اس طرح دو تین گھنٹے مزید گزر گئے لیکن نہ پانی آیا اور نہ ہی کہیں پانی آنے کی امید تھی۔ اتنے میں دوبارہ کوئی آیا اور ابو طالب کو پکڑ لیا۔ ابو طالب جیسے ہی مڑے تو دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر چچا ابو طالب پھر غصے میں آگئے اور کہا اے بھتیجے محمد تم پھر کیوں آئے ہو؟ یہ سن کر پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے چچا میں پھر پانی مانگنے نہیں آیا، آپ کا پسینہ پونچھنے آیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کا پسینہ پونچھنے لگے۔ شیٹ. یہ دیکھ کر چچا ابو طالب کی اپنے بھتیجے سے محبت چھلک گئی اور انہوں نے فوراً اپنے بھتیجے کو گلے لگا لیا۔

Hamare Nabi Ke Bachpan Ka Waqia:—-

جیسے ہی ابو طالب نے مجھے گلے لگایا، اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہنا شروع کیا، چچا مجھے آنے دو، میں کچھ کروں گا، اوپر اللہ بارش برسائے گا۔ یہ سن کر چچا ابو طالب کچھ کہنے ہی والے تھے۔ اس سے پہلے بھی ان 32 لوگوں میں سے کسی نے یہ سنا اور زور زور سے کہنا شروع کر دیا۔ اے اہل مکہ! پانی آیا تو سب نے یہ سن کر کہا یہ پاگل پانی کہاں سے آیا ہے؟ یہاں ہم سب گرمی سے مر رہے ہیں، تم کہتے ہو کہ پانی آگیا ہے۔ تو اس آدمی نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ محمد کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ کریں گے۔ اور پانی آجائے گا۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے اے محمد، آؤ، ہاں محمد، جلدی آؤ۔

پھر اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے قریب تشریف لائے اور سب سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کر رہے تھے؟ تو سب نے کہا کہ ہم یہاں پانی مانگ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت کہاں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم پانی مانگ رہے تھے، میں اس وقت پیچھے تھا۔ پانی مانگنا تو تم میری پیروی کرو۔ یہ سن کر ان 32 میں سے 20 لوگ واپس چلے گئے لیکن ان میں سے 12 اڑے رہے اور کہا کہ یہ 9 سال کا بچہ آگے ہو گا اور اگر ہم مکہ کے بڑے لوگ پیچھے رہے تو ہماری ناک کٹ جائے گی، ہم کریں گے۔ واپس نہیں جانا.

Prophet Muhammad Story in Urdu:—

یہ سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اتار دی اور فرمایا کہ اہل مکہ واپس چلے جاؤ۔ ایک بار جب محمد واپس چلا جائے گا تو مکہ میں عذاب ہو گا لیکن پانی کبھی نہیں آئے گا۔ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جانے لگے، سب تھک چکے تھے۔ اس طرح 20 لوگ جو واپس چلے گئے تھے۔ اس نے سامنے والوں سے کہا کہ پیچھے ہٹو، ہمارے بچے یتیم ہو جائیں گے، ہم سب مر جائیں گے۔ پھر وہ 12 لوگ بھی واپس آکر بیٹھ گئے۔ تو اللہ نے بتایا کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر صرف 9 سال ہے۔ اور انہوں نے مکہ کے بڑے بڑے سرداروں کو آزاد کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امام بنایا تو پیچھے والے تمام لوگ ناراض ہو گئے تو وہ بلند آواز سے کہنے لگے کہ اے محمد اب ہم پیچھے آگئے ہیں، اب پانی مانگیں۔
یہ سن کر اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پلٹ کر فرمایا کہ یہ لوگو تم نے پانی مانگا تھا تو تم چاہتے ہو کہ میں بھی پانی مانگوں، پھر تم میں اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا؟ تو یہ سن کر وہ چلّانے لگے اور کہنے لگے اے محمد! کیا پوچھو گے بس دیکھتے رہو میں کیا کروں گا؟ اس کے بعد اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار اپنا چہرہ آسمان کی طرف تھوڑا سا اٹھایا تو لوگوں نے دیکھا کہ آسمان پر بادل جمع ہونے لگے ہیں۔

اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف تھوڑا اور اٹھایا۔ اسی دوران آسمان سے پانی برسنے لگا۔ اس کے بعد تیسری مرتبہ اللہ کے نبیﷺ نے اپنا پورا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور پورے مکہ میں موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ کچھ ہی دیر میں ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ یہ دیکھ کر تمام مکہ والے بہت خوش ہوئے اور بارش میں بھیگتے ہوئے یا محمد یا محمد کہہ کر اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ اسی دوران اللہ کی طرف سے آواز آئی کہ اے میرے محبوب تو نے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی؟ تم نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف کیوں اٹھایا؟ اگر آپ میری انگلی سے اشارہ کرتے تو میں بارش کر دیتا، سبحان اللہ۔

حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ / Hazrat Nooh Ali Salam

Picsart 24 07 12 09 02 42 254

Views: 204

حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ

حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ہزار سال تک توحید پر ثابت قدم رہنے کے بعد ان لوگوں میں بت پرستی اس طرح شروع ہوئی کہ ان برے لوگوں میں اچھے لوگ بھی تھے۔ یہ برے لوگ ان اچھے لوگوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اور ان سے اثر و رسوخ حاصل کرتے تھے۔ اپنی عزت پر بہت فخر کیا کرتے تھے۔ جس طرح آج کل لوگ علمائے کرام اور صالحین کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے مشروب کی آمیزش کرتے ہیں۔ یہ چیز بعد میں سرکس کا میڈیم بن گئی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ نوح کی آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان فرمایا۔

اور فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو نہ چھوڑو، نہ ود کو، نہ سواح، یحییٰ، یاقع یا نسل کو چھوڑو، اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے نیک لوگوں کے نام ہیں۔ جب وہ مر گیا تو شیطان نے یہ بات اس کی برادری کے دلوں میں ڈال دی۔ ان کے مجسمے بنائیں اور رکھیں جہاں وہ لوگ بیٹھتے تھے اور ان کو وہی نام دیتے تھے جو ان بزرگوں کے تھے۔ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور پتھر کے مجسمے بنائے اور ان پرانے لوگوں کے نام رکھ دیئے۔ اس وقت بتوں کی پوجا نہیں کی جاتی تھی لیکن جب یہ لوگ مر گئے اور علم ختم ہو گیا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قوم نوح علیہ السلام کے انہی بتوں کو بعد میں عرب میں پوجا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی ان بزرگوں کے مجسمے بنائے گئے اور آہستہ آہستہ ان کی پوجا شروع کر دی گئی۔ اور تمام لوگوں نے صرف ایک اللہ کی عبادت سے انکار کر دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام اس دنیا میں واحد موحد اور توحید کے پیروکار تھے۔

حضرت نوح علیہ السلام کا سلسلہ نسب۔

حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ کچھ یوں ہے۔ نوح بن لمیک بن متوسلہ بن ادریش۔ اس طرح ادریس علیہ السلام آپ کے پردادا بن گئے۔ اس وقت لوگ بہت لمبی زندگی گزارتے تھے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادریس علیہ السلام کئی سال زندہ رہے اور نوح علیہ السلام ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے۔ لمبی عمر کی وجہ سے ادریس (ع) اور نوح (ع) کے درمیان کافی وقت ہے۔ اور اس دور میں کفر اور گناہ نے زور پکڑا اور بتوں کی پوجا شروع ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو زمین کا کنٹرول دے دیا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس کرانیں تھیں۔ ایک کرن کی عمر 100 سال ہے۔ آدم علیہ السلام کے بعد ایک ہزار سال تک لوگ توحید پر جمے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ شیطان نے انہیں برائی کے راستے پر ڈال دیا۔ شرک عام ہو گیا۔ ایک اللہ کی عبادت بالکل ختم ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے فرمایا۔ اس نے اللہ کو پکارا۔

اس نے بہت محنت کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ نوح میں فرماتا ہے۔ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان ہے۔ یقیناً ہم نے نوح کو ان کی امت کی طرح بھیجا ہے۔

اپنی برادری کو ڈرانا؟ اور براہ کرم خبردار کریں؟ اس سے پہلے کہ ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہو، نوح نے کہا۔ یہ میری امت ہے، میں تم پر واضح کرنے جا رہا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور اگر تم میری اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور ایک معینہ مدت تک تمہیں چھوڑ دے گا۔ بے شک جب اللہ کا وعدہ آجائے تو کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ کاش آپ سمجھ جائیں۔

نوح علیہ السلام تبلیغی سلسلے میں بہت محنت کرتے ہیں۔ آپ دن رات لوگوں کے گھروں اور ان کی محفلوں میں جاکر ان کی ضیافت کرتے تھے، آپ ان کی دعوت بڑے ڈھنگ سے کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی دعوت کو 950 سال گزر چکے تھے، لیکن چند لوگوں کے سوا کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔ پھر اللہ سے دعا کی

اے میرے اللہ میں نے اپنی جماعت کو دن رات تیری طرف بلایا لیکن میری پکار سے وہ اور بھی بھاگنے لگے۔ اس نے کانوں میں انگلیاں دبا لیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ لیا اور کہا کہ ہم تمہارا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ میرے اللہ یہ لوگ تمہاری باتیں سننا پسند نہیں کرتے پھر بھی میں نے ان سے کہا
اپنے باس سے ٹپ مانگو، وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔ اس وقت نوح علیہ السلام کی جماعت میں ایک بادشاہ تھا۔ وہ بہت مغرور تھا، وہ برادری سے کہنے لگا کہ نوح کی بات نہ سنو اور نہ ہی اس سے جھگڑا کرو، وہ جو بھی کرے اسے کرنے دو، تم اپنے بچوں کی عبادت پر قائم ہو۔

چنچائی کے لوگوں نے نوح علیہ السلام کی باتوں پر کان بند کر لیے اور اپنے بادشاہ کی باتوں پر عمل کرنے لگے۔ پھر نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے رب یہ میری نہیں سنتے، وہ ان لوگوں کی بات سنتے ہیں جن کی اولاد اور مال نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ نقصان پہنچایا ہے اور انہوں نے مجھ سے بڑی شرط لگا رکھی ہے۔ یعنی میں نے دوسروں کو اپنے جیسا بنایا۔ انہوں نے خود مجھے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایک دوسرے کو یہ کہنے لگے۔

Picsart 24 07 09 07 22 15 032 1

اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو، نہ ود، نہ سواح، نہ یشوع، نہ ایوب اور نہ نصر کو۔ ان لوگوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا
اور اے رب ایسا کرنے سے یہ ظالم مزید گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح نوح علیہ السلام نے 950 سال تک لوگوں کو دن رات اللہ کی طرف بلایا۔ لیکن اتنی مختصر مدت میں صرف 80 کے قریب لوگ مسلمان ہوئے۔ اور ان دیانتدار لوگوں کی اکثریت فقراء مسکین نہ توا اور غلام قسم کے لوگوں پر مرکوز تھی۔

جن کی برادری میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ شاید ہی 10 ایماندار ہوں گے جو شرف او جاہ کے مالک ہوں گے۔ جب نوح علیہ السلام کے متکبر سرداروں نے یہ حالت دیکھی تو وہ اکٹھے ہوئے اور نوح علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ اے نوح ہم آپ کی بات سننا چاہتے ہیں اور لوگوں کو سکھانا چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی بات سنیں۔ آپ پر یقین کرنا چاہئے.

لیکن اس سے پہلے ہماری یہ شرط ہے کہ یہ حقیر اور حقیر لوگ جو آپ کے حلقے میں آئے ہیں، آپ کو آپ سے باہر دھکیل دیا جائے۔ کیونکہ ہم اپنی برادری کے سردار چودھری ہیں اور اعلیٰ مقام کے لوگ ہیں اس لیے ان بھکاریوں کے قریب نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر آپ انہیں ہٹا دیں گے تو ہم دوبارہ ایمان لے آئیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ ہود کی آیات 27 تا 31 میں قوم نوح کے ان سرداروں کی تعریف کی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کفار کے سرداروں نے نوح علیہ السلام سے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ہمارے جیسے آدمی ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آپ کی پیروی صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ہم میں سے رجل ہیں اور وہ بھی اعلیٰ عقل کے ساتھ اور ہم آپ کو کسی میں نہیں سمجھتے معاملہ۔ وہ خود سے زیادہ حاصل نہیں کرتے، بلکہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ نوح نے کہا اے سردار بتاؤ یہ سچ ہے کہ اگر میں اس حجت پر قائم رہوں جو میرے رب کی طرف سے آئی ہے اور اس نے مجھے اپنی مہربانی سے تخت عطا کیا اور وہ تم سے پوشیدہ رہا تو میں اسے تم پر زبردستی کیوں مسلط کروں گا؟ ? حالانکہ آپ اس سے ناخوش ہیں۔ میری برادری کے لوگو میں تم سے اس پر کچھ نہیں مانگتا۔

میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے، میں ایماندار لوگوں کو اپنے سے نہیں نکال سکتا، انہیں اپنے رب سے ملنا ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت کی باتیں کر رہے ہو۔

میری امت کے لوگو اگر میں ان مومنوں کو اپنے سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلے میں کون میری مدد کر سکتا ہے؟ تم کسی بات کی فکر نہ کرو، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ مجھے غیب کا علم ہے، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، نہ میں اپنے آپ کو جن کہتا ہوں لیکن تمہارا نظریں آپ کو حقارت سے دیکھ رہی ہیں، اللہ ان پر کوئی احسان نہیں کرے گا۔ جو کچھ ان کے دل میں ہے۔

اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہو گا۔ اس پر نوح علیہ السلام کی جماعت اور زیادہ متکبر ہو گئی اور کہنے لگے کہ اے نوح بہت ہو گیا، تم نے ہمیں بہت ڈرایا ہے۔ اب اگر تم سچے ہو تو وہ چیز واپس لے آؤ جس کا تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔

ان کی بات سن کر نوح علیہ السلام نے فرمایا۔ عذاب لانا اللہ کا کام ہے۔ اللہ کو کوئی راضی نہیں کر سکتا اور جب اس کا عذاب آئے گا تو کوئی بھاگ نہیں سکے گا۔ اس کے بعد جب نوح (علیہ السلام) کی جماعت ان سے آمنے سامنے ہوئی تو آپ نے ان سے کہا کہ اے میری امت اگر تم کو یہ بات پہنچی کہ میں تمہارے درمیان رہتا ہوں اور تم سے اللہ کا کلام سنا رہا ہوں تو تم اس سے ناراض ہو کر مجھے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تو سنو، میں تم سے صاف کہتا ہوں، مجھے تم سے کوئی خوف نہیں، مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں، تم جو کچھ کر سکتے ہو کرو، جو کچھ میرے ساتھ ہو سکتا ہے بگاڑ دو، تم اپنے شریکوں اور جھوٹے معبودوں کو بھی پکارتے ہو۔ اور تم سب مل کر مشورہ کرو اور کھلم کھلا اپنی پوری طاقت سے مجھ پر حملہ کرو۔ میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم مجھے جو بھی نقصان پہنچا سکتے ہو کرو، کوئی کسر نہ چھوڑو، مجھے کوئی وقت نہ دو، مجھے اچانک گھیر لینا۔

میں بالکل بے خوف ہوں۔ اس لیے میں تیرے راستے کو باطل سمجھتا ہوں، میں حق پر ہوں اور اللہ حق کا ساتھی ہے۔ میرا بھروسہ اس عظیم ذات پر ہے۔ میں اس کی طبیعت کی عظمت کو جانتا ہوں۔

نوح علیہ السلام نے واضح الفاظ میں اپنی امت کو چیلنج کیا۔ لیکن کسی میں طاقت نہیں تھی۔ کہ وہ نوح علیہ السلام کا مقابلہ کر سکے۔ چناچے نے کہا چھوڑو اسے، وہ بے وقوف اور بے وقوف ہے، نوج اللہ۔ تاہم معاملہ انہی خطوط پر چلتا رہا۔ برسوں بیت گئے لیکن کوئی مسلمان نہ ہوا۔

پھر پہاڑ پر رہنے والے لوگ۔ دن بہ دن بروز برائی میں ترقی کرتا رہا اور شروع میں ماننے والوں کے علاوہ کوئی اور نہیں مانتا۔ نوح علیہ السلام ان کو مسلّل
دعوتیں دیتے رہے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی فرمایا کہ کوئی شخص امام نہیں لائے گا۔

نوح علیہ السلام نے ان کی امت پر لعنت بھیجی۔

اللہ تعالیٰ سورہ ہود میں فرماتے ہیں۔ نوح علیہ السلام سے بھی یہی کہا گیا کہ آپ کی امت میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو ایمان لے آئے ہیں۔ بس ان کے اعمال پر غمگین نہ ہوں۔ مطلب یہ تھا کہ تم غمگین نہ ہو۔

اللہ کا حکم اب پورا ہونے والا ہے۔ توجہ فرمائیے، حضرت نوح علیہ السلام کا جذبہ دیکھیں۔ لوگ 950 سال تک اس کی دعوت سے انکار کرتے رہے۔

لیکن پھر بھی ان میں سے امید نہ ہاریں۔ اب جب کہ اللہ کی طرف سے یہ بات آچکی ہے کہ ان میں سے کوئی نہیں مانے گا اور نہ کوئی ان کی رہنمائی کی طاقت رکھتا ہے۔ پس نوح علیہ السلام نا امید ہو گئے اور اپنی امت پر لعنت بھیجی۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ نوح کی آیات 26 تا 28 میں اس کا ذکر کیا ہے۔

نوح نے کہا اے میرے رب اس روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے نہ دینا اگر تو ان کو چھوڑ دے تو وہ یقیناً تجھے اور تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی اولاد بھی فاسق اور ناشکری ہو گی۔

اے میرے رب مجھے اور میرے والدین کو اور جو بھی میرے گھر میں ایمانداری کے ساتھ آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے اور کافروں کو سوائے ہلاکت کے کچھ نہ دینا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب نوح علیہ السلام نے ہمیں مدد کے لیے بلایا تو ہم نے ان کی مدد کی اور ایک بڑی کشتی بنا کر بھی ایسا ہی کیا۔

لیکن نوح علیہ السلام کو اتنی بڑی کشتی بنانے کا طریقہ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی وہ بڑھئی تھے جو اس کام کے قابل تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری ہدایت کے مطابق کشتی بنا دیا۔
تیار کریں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے ان کی رہنمائی فرمائی اور مزید تعلیم کے لیے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا ۔

وہ ان سے کہتا رہا کہ کشتی اس طرح تیار کرو، نوح علیہ السلام ایک پہاڑ پر رہتے تھے، ان کے اردگرد نہ درخت تھے اور نہ پانی، اس لیے انہوں نے بہت سے درخت اگائے، پھر انہیں کاٹا اور پہاڑ پر بیٹھ کر کشتی تیار کرتے رہے۔ . آپ بڑے بڑے تختے بناتے اور لوہا لاتے اور ان سے کیلیں بناتے۔

پھر وہ ان کیلوں کو تختوں میں مار دیتے۔ ان تختوں کو آپس میں جوڑنے سے ایک بہت بڑی مضبوط اور آسمانی کشتی تیار ہو گئی۔

ایک روایت کے مطابق نوح علیہ السلام نے اسے 100 سال میں مکمل کیا۔ یہ وہ کشتی تھی جسے نوح علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے مطابق تیار کیا تھا جیسا کہ سورۃ القمر آیت 13 میں مذکور ہے۔ اور ہم نے نوح کو کشتی میں سوار کیا جو تختوں اور کیلوں سے بنی ہوئی تھی۔

نوح علیہ السلام نے دعوت کا کام چھوڑ کر کشتیاں بنانا شروع کر دیں۔ جب بھی وہ اسے بناتے ہوئے دیکھتے، اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ کہتے ہیں نوح پہلے تو نبی تھا اب بڑھئی ہو گیا ہے۔ مجید کہتا ہے کہ یہ کیسا احمق ہے پہاڑ پر کشتی بنا رہا ہے۔ تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کا مذاق اڑایا۔ سورہ ہود کا ذکر آیات 38 اور 39 میں ہے۔

نوح علیہ السلام نے کشتی بنانا شروع کی۔ وہ کہتا تھا کہ اس کے پاس سے گزرنے والے اس کی برادری کے لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ تم ہمارا مذاق اُڑاؤ گے تو ایک دن ہم بھی تمہارا مذاق اُڑائیں گے۔
وہ ہنسیں گے، گویا تم جوکر ہونے کا ڈرامہ کر رہے ہو، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آئے گا جو اسے رسوا کرے گا اور اس پر ابدی عذاب آئے گا۔

نوح کی کشتی کا ظہور۔

اس کشتی کی تفصیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں آئی ہے۔ کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام نے پہاڑ پر ایک کشتی تیار کی۔ اور اسے تارکول سے بھگو دیا۔ اس وقت سے کوئلے کا تار مشہور ہوا۔ اس کشتی کا وزن 300 گز، اونچائی 30 گز اور کنارہ 50 گز ایک اندازے کے مطابق اس کی لمبائی ایک کلومیٹر سے زیادہ تھی۔ اور اس کی اونچائی اور گہرائی 30 ہاتھ بتائی جاتی ہے۔

اور یہ کشتی عام کشتیوں کی طرح اوپر سے کھلی نہیں تھی، بلکہ نیچے سے بند تھی۔ اسی طرح اوپر کو بھی بند کر دیا گیا تھا تاکہ اوپر سے ہونے والی بارش ان کو نقصان نہ پہنچائے۔ اور جس طرح نیچے والے لوگ پھنسنے سے محفوظ ہیں۔
اسی طرح اوپر والے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک گیند کی طرح ہو۔ اس میں تین مختلف کیٹگریز کی گئیں۔ ہر سطح پر ایک دروازہ تھا اور یہ تین دروازے اس طرح تھے۔ کہ ہر دروازے کے اوپر ایک دروازہ تھا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کہاں ہے؟

یہ اس کشتی کی شکل تھی جس کے کپتان حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ کشتی آج ہی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کو عبرت اور نشانی کے طور پر رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ہم نے اس واقعہ کو نشانی کے طور پر رکھا ہے تاکہ کوئی نصیحت لینے والا ہو۔ اس صدی میں علماء کی ایک جماعت کو یہ کشتی ترکی کے ایک پہاڑ پر ملی۔ اب اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس کی شکل ویسی ہی تھی جیسا کہ بتایا گیا ہے۔ اللہ کا حکم سچا ثابت ہوا کیونکہ ہم نے اسے نشانی بنا رکھا ہے۔

اس کے بعد طوفان آیا۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو اس طوفان کے آنے کی نشانی اور نشانی بتائی تھی۔ نوح علیہ السلام کے گھر میں ایک تنور تھا۔ اللہ نے فرمایا۔ جب یہ تنور گرم ہونے لگے اور پانی ابلنے لگے تو سمجھ لیں کہ اللہ کا وعدہ آگیا ہے۔ اس وقت مومن، اپنی پہلی خوراک اور زمین پر رہنے والے تمام جانوروں کو اس کشتی میں جوڑے بنا کر لے جانا۔ وہ تنور سے کیا چاہتا ہے؟
مطلق مفسرین میں اختلاف ہے۔ باز کہتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے وہ تماشا جو زمین سے نکلتا ہے۔ لیکن ریاستی روایت کے مطابق اس سے مراد وہ چھوٹا تنور ہے جس میں آگ جلا کر روٹیاں پکائی جاتی ہیں۔

یہ تنور نوح علیہ السلام کے گھر میں تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے طوفان کے آنے کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ پھٹ جائے۔ اس وقت، کشتی میں ہر چیز کے جوڑے لے لو.
اللہ تعالیٰ سورہ ہود کی آیت نمبر 40 میں فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ہمارا آرڈر آیا اور تنور ابلنے لگا۔ ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جوڑے ڈبل مسافر لے جائیں اور ہمارے خاندان کے لوگ بھی، سوائے ان کے جن کے زن کے بارے میں بات ہو چکی ہے اور تمام مومنین بھی۔

ان کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ کشتی میں سوار افراد کی تعداد 80 بتائی جاتی ہے۔ جب تنور جوش میں آنے لگا تو نوح (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہو گئے، کشتی لوگوں سے دور پہاڑ پر تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اسے بھی سوار کیا۔

اللہ تعالیٰ سورۃ القمر کی آیات 11 اور 12 میں فرماتا ہے۔ ہم نے بس ایک موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کے شیشے چھوڑ دیے۔ پیپ

اس کام کے لیے جو پانی مختص کیا گیا تھا وہ بڑی مقدار میں جمع ہو گیا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ آسمان سے کتنا پانی نکلا اور کتنا پانی زمین سے نکلا۔ بہرحال اس پانی نے انسانوں، جانوروں اور زمین پر رہنے والے جانوروں سمیت ہر چیز کو غرق کردیا۔ اس بارے میں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ نوح علیہ السلام اپنی برادری سے تنگ آکر ہمارے پاس آئے اور دعا کی کہ ہم حاضر ہیں
ہم نے بہترین دعا قبول کرنے والے ہونے کے ناطے اس کی دعا فوراً قبول کی اور اسے اس تکلیف اور تکلیف سے بچا لیا جو اسے کفر کی وجہ سے ہر روز موت کی طرف لے جا رہا تھا اور ہم نے اس کی اولاد کو مستقل کر دیا۔ یعنی دنیا پھر سے ان کے بچوں سے آباد ہوئی کیونکہ صرف وہی لوگ رہ گئے جو کشتی پر سوار تھے اور ہم نے ان کا ذکر صرف پسماندہ لوگوں میں رکھا۔ سلام ہو نوح علیہ السلام پر تمام جہانوں میں۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اس طرح بدلہ دیتے ہیں۔ وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے۔ پھر ہم نے باقی سب کو جھنجھوڑ دیا۔

اللہ مجید فرماتے ہیں۔ جب حکمت پانی میں آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کیا تاکہ وہ تمہارے لیے نصیحت اور یادگار بن جائے تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔ یعنی اتنا پانی تھا۔ جس کی وجہ سے تمام شہر، بستیاں، انسان اور جانور تباہ ہو گئے۔ یہاں کا پانی اونچے پہاڑوں سے اونچا ہو گیا اور اتنے اونچے پانی پر یہ کشتی ایک پہاڑ کی مانند تھی جس نے نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اللہ کے حکم اور اس کی حفاظت میں تھام رکھا تھا۔

ورنہ ایسے طوفانی پانیوں میں کشتی کی کیا حیثیت ہے؟ نوح (علیہ السلام) کشتی پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا۔ یہ کشتی اللہ کے نام پر چلتی اور رکتی ہے۔ بے شک میرا رب بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ اللہ کا آپ کو حکم تھا کہ جب آپ اور آپ کے ساتھی بیٹھ جائیں تو کہیں۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے محفوظ رکھا اور کہا اے میرے رب مجھ پر درود بھیج اور تو سب سے بہتر نازل کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام کو نصیحت فرما رہے ہیں۔ کہ اللہ آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات عطا فرمائے گا، سوائے کفار کے بیٹے نوح علیہ السلام کے خاندان کے تمام افراد کشتی میں سوار تھے۔ آپ کے کافر بیٹے کا نام کنعان تھا۔

وہ ایک طرف کھڑا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے پکارا کہ بیٹا اس کشتی میں سوار ہو جا اور کافروں کا ساتھی نہ بننا لیکن اس بدکار نے کہا میں تو بس پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لوں گا۔ ” جو مجھے اس پانی سے بچائے گا۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں سوائے اس کے جس پر اللہ رحم کرے۔ جب باپ بیٹے کے درمیان یہ گفتگو جاری تھی کہ طوفانی مزے نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسے غرق کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے گھر والوں کو تحفظ فراہم کرے گا، چنانچہ جب ان کا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا تو اس نے پکارا کہ اے اللہ میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے تھا۔ اور آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے گھر والوں کو نجات دلائیں گے اور آپ تمام ڈاکٹروں سے بہتر ڈاکٹر ہیں، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ آپ کا وعدہ پورا نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرنا تعریف کی صورت میں تھی نہ کہ بحث کی صورت میں، آپ وضاحت چاہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اے نوح وہ تیرے خاندان میں سے نہیں تھا کیونکہ وہ کافر تھا۔ کفر نسب کو تباہ کر دیتا ہے۔ ایک مومن کا دوسرے مومن سے رشتہ مسلمان ہے۔

نوح علیہ السلام کے کتنے بیٹے تھے؟

حضرت نوح کے بیٹے کا نام کیا ہے؟

نوح علیہ السلام کے 4 بیٹے تھے۔ جس میں ایک سیلاب میں ڈوب گیا اور تین اس کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، ان کے نام یہ ہیں۔

شام،
ہام،
یافش،

شام کی نسل زیادہ تر رنگ میں سفید تھی اور ان میں سے بہت کم بھورے تھے، حالانکہ ان میں سے کچھ بھورے تھے۔ عرب اور بنی اسرائیل شام کے بچے ہیں۔

حام کی اولاد کا نام سیاح فام تھا۔ ان میں سے بہت کم سفید فام تھے، سب کے سب ہوس پرست حام کی اولاد تھے۔

یافث کی اولاد سرخ رنگ کی تھی، ترک اور مشرکی ایشیا کے لوگ یافس کی اولاد ہیں۔

طوفان کے بعد نوح علیہ السلام 350 سال اللہ کے بندوں میں رہے۔
اور وہ اللہ کے کُل آبادان شکورن کی غلطی تھی، پھر نوح علیہ السلام نے وفات پائی۔ راجہ ترین
روایت کے مطابق آپ کو مکہ میں دفن کیا گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق انہیں لبنان میں دفن کیا گیا۔

TO BE CONTINUE…..

قابیل اور ابیل / Qabil and Habil

Picsart 24 07 12 09 09 20 939

Views: 33

قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کے نام نہیں بتائے ہیں، صرف “آدم کے دو بیٹے” کہہ کر متن کو چھوڑ دیا ہے، حالانکہ تورات میں ان کے نام درج ہیں۔

بعض روایات میں ان دونوں بھائیوں کے درمیان ان کی شادیوں کے حوالے سے شدید اختلاف کا ذکر ہے۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے حضرت آدم علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں اپنی اپنی اپنی قربانیاں اللہ کے حضور پیش کریں۔ جس کی قربانی قبول ہو وہی اس کی نیت پوری کرنے کا حقدار ہے۔

قابیل اور ہابیل کا قول

جیسا کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کا الٰہی طریقہ یہ تھا کہ ہدیہ اور قربانی کی چیز کسی اونچی جگہ پر رکھ دی جاتی تھی اور آسمان سے آگ نمودار ہو کر اسے جلا دیتی تھی۔

اس قانون کے مطابق ہابیل نے اپنے ریوڑ میں سے ایک بہترین بیل اللہ کے حضور پیش کیا اور قابیل نے اپنے کھیتی باڑی میں سے ایک بیل قربانی کے لیے پیش کیا۔ اس عمل سے دونوں کے اچھے اور برے ارادوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حسب دستور آگ نے آکر ہابیل کی آنکھیں جلا دیں اور اس طرح قربانی کے قبول ہونے کا شرف اس کے حصے میں آیا۔ قابیل کی یہ توہین کسی طرح بھی برداشت نہ ہوسکی اور اس نے غصے میں آکر ہابیل سے کہا کہ میں تجھے قتل کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا تاکہ تیری خواہش پوری نہ ہو۔

ہابیل نے جواب دیا


میں تم پر کسی صورت ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، باقی وقت، تم جو چاہو کرو۔ جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو اللہ کے ہاں نیک نیت ہی قبول ہو سکتی ہے۔ وہاں نہ برے ارادوں کی دھمکیاں اور نہ ہی غیر ضروری غم و غصہ کام آ سکتا ہے اور اس پر قابیل کو بہت غصہ آیا اور اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔

قرآن کریم میں نہ تو نکاح سے متعلق کوئی اختلف کا ذکر ہے اور نہ ہی ان دونوں کے ناموں کا ذکر ہے، صرف قربانی (نذر) کا ذکر ہے اور اس روایت سے بڑھ کر یہ ہابیل کی تدفین سے متعلق ایک اضافہ ہے۔ مردہ جسم۔

قتل کے بعد قابیل سوچ رہا تھا کہ اس لاش کا کیا کیا جائے؟ آج تک آدم علیہ السلام کی نسل کو موت کا سامنا نہیں ہوا تھا اور اسی لیے حضرت آدم علیہ السلام نے میت کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک کوے نے زمین نوچ کر گڑھا کھودا ہے۔ یہ دیکھ کر قابیل نے خبردار کیا کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی ایسا ہی گڑھا کھود لے اور بعض روایات میں ہے کہ کوے نے اس گڑھے میں ایک اور مردہ کوے کو چھپا دیا۔

جب قابیل نے یہ دیکھا تو اسے اپنی فضول زندگی پر بہت افسوس ہوا اور کہا کہ میں بھی اس جانور سے گزرا ہوں اور مجھے اپنے اس جرم کو چھپانے کی شرافت بھی نہیں ہے۔ اس نے شرمندگی اور ندامت سے سر جھکا لیا اور پھر اسی انداز میں اپنے بھائی کی لاش کو زمین پر دے دیا۔ اس واقعہ کے بیان کے بعد قرآن کریم کہتا ہے:

اسی لیے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے ایک جان کو اپنی جان کے بدلے یا مصیبت میں ڈالنے کے لیے قتل کیا گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا گویا اس نے تمام لوگوں کے لیے زندہ کر دیا سورہ مائدہ 5:32۔

امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی اس دنیا میں کوئی ظلم سے مارا جاتا ہے تو اس کا قصور ضرور حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابل) کی گردن پر ہوتا ہے، کیونکہ وہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ایک ظالمانہ قتل شروع کیا اور اس ناپاک سنت کو جاری کیا۔

لکھنے کی جگہ

سورہ مائدہ کی متذکرہ آیت اور مذکورہ بالا حدیث ہم پر یہ حقیقت بتاتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ ایجاد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کائنات کا ہر شخص اس بدعت کا ارتکاب بھی کرے گا۔ اکرام، تو وہ شخص جس نے بدعت کی بنیاد رکھی وہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہو گا اور ایجاد کرنے والے ہونے کی وجہ سے ابدی ذلت اور نقصانات کا حقدار ہو گا۔ [نعوذ باللہ من ذالک]

(حضرت آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کا ذکر سورہ مائدہ میں آیا ہے۔)

To Be Continue…..

حضرت آدم علیہ السلام / Hazrat Adam Alaihissalam

20240712 073003

Views: 79

آدم علیہ السلام کی پیدائش، فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم، شیطان کا انکار:

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کا خمیر تیار ہونے سے پہلے ہی فرشتوں کو یہ خبر دے دی کہ وہ بہت جلد اس مٹی سے ایک مخلوق پیدا کرنے والا ہے جو بشر کہلائے گا اور اسے ہماری عزت نصیب ہوگی۔ زمین پر خلافت

آدم کے خمیر کو مٹی سے گوندھا گیا تھا اور ایک ایسی مٹی سے گوندھا گیا تھا جو ہر روز نئی تبدیلیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار تھی۔ جب اس مٹی نے مٹی کے برتن کی طرح آوازیں نکالنا شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے مجسمے میں روح پھونک دی اور ساتھ ہی وہ ایک زندہ انسان بن گیا جس میں گوشت، ہڈیوں اور ہڈّیوں سے بنا اور ارادے، ہمت، اعضاء، ذہانت اور فکری جذبات و کفایت کا نتیجہ ظاہر ہو گیا۔

پھر فرشتوں کو اس کے سامنے سجدے میں گرنے کا حکم دیا گیا، فوراً تمام فرشتوں نے اس کی درخواست مان لی، لیکن ابلیس (شیطان) نے تکبر کے ساتھ صاف انکار کر دیا۔

سجدے سے انکار پر ابلیس کی سزا:

حالانکہ اللہ تعالیٰ غیب کا جاننے والا ہے اور دلوں کے بھید جانتا ہے اور میری زندگی، میرا حال اور میری تقدیر (ماضی، حال اور مستقبل) سب اس کے لیے برابر ہیں، لیکن اس نے ابلیس (شیطان) سے امتحان کے لیے سوال کیا۔ ٹرائل کیا –
جب میں نے حکم دیا تھا تو تمہیں سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ اعراف 7:12

ابلیس نے جواب دیا-
’’حقیقت یہ ہے کہ میں آدم سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ اور مٹی سے پیدا کیا
‘‘ اعراف 7:12

شیطان کی منشا یہ تھی کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آگ اٹھنا چاہتی ہے اور آدم ایک ‘مردہ مخلوق’ ہے تو راکھ کا آگ سے کیا تعلق؟ میں ہر لحاظ سے آدم سے افضل ہوں تو وہ مجھے سجدہ کرے اور میں اسے سجدہ نہ کروں؟ لیکن بدقسمت شیطان اپنے غرور کے نشے میں مست ہو کر یہ بھول گیا کہ جب تو اور آدم دونوں خدا کی مخلوق ہیں تو مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر مخلوق بھی نہیں جان سکتی اور اپنے غرور اور غرور میں اس بات کو نہ سمجھ سکی۔ مرتبے کا عروج و زوال اس مادے پر نہیں جس سے مخلوق کا خمیر تیار کیا گیا ہے، بلکہ ان خوبیوں پر ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر رکھی ہیں۔

حالانکہ شیطان کا جواب چونکہ جہالت اور تکبر پر مبنی تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر واضح کر دیا کہ جہالت سے پیدا ہونے والی تکبر اور غرور نے تمہیں اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ تم اپنے خالق اول کے حقوق کا احترام نہیں کرتے اس سے بھی کافر ہو گیا اور اس لیے مجھے ظالم کہا، اس لیے اب تم اس ضد کی وجہ سے ابدی ہلاکت کے مستحق ہو گئے اور یہ تمہارے اس عمل کی فطری سزا ہے۔

ابلیس نے وقت مانگا

جب ابلیس نے دیکھا کہ خالق کائنات کے حکم کی نافرمانی، غرور اور ناانصافی نے اسے اللہ رب العزت کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے موت اور جنت سے محروم کر دیا ہے، تو اس نے توبہ اور مذمت کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا۔ درخواست کی کہ آپ مجھے قیامت تک کی مہلت دیں اور اس طویل مدت تک زندگی کی رسی کو طول دیں۔

یہ بھی اللہ کی حکمت کا تقاضا تھا، اس لیے اس کی درخواست قبول ہوئی۔ یہ سن کر اس نے ایک بار پھر اپنی شرارت کا مظاہرہ کیا اور کہا۔
جب سے تو نے مجھے بشر قرار دیا ہے، تو آدم کی وجہ سے مجھے یہ شرف حاصل ہوا، میں بھی اولاد آدم کے راستے پر چلوں گا اور ان کے آگے، پیچھے، اردگرد اور ہر طرف سے گزر کر ان کو گمراہ کروں گا اور ان کو تباہ کروں گا۔ اکثریت میں تجھے ناشکرا چھوڑ دوں گا، البتہ تیرے ‘مخلص’ بندے میرے فریب کے تیروں سے زخمی نہیں ہوں گے اور ہر طرح سے محفوظ رہیں گے۔

اللہ نے فرمایا
ہمیں اس کی کیا پرواہ ہے ہماری فطرت کا قانون، عمل کی جزا اور دوسروں کا عمل ناقابل تغیر قانون ہے۔ لہٰذا وہ جو کچھ بھی کرے گا اس کو اسی کے مطابق اجر ملے گا اور جو آدم کا ہو جائے گا وہ مجھ سے پناہ لے گا اور تیری پیروی کرے گا وہ بھی تیرے ساتھ میرے عذاب کا حقدار ہوگا۔ اپنی ذلت، رسوائی اور بد نصیبی کے ساتھ یہاں سے چلے جاؤ اور اپنے اور اپنے پیروکاروں کے ابدی عذاب (جہنم) کا انتظار کرو۔

آدم علیہ السلام اور دوسرے فرشتے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو اطلاع دی کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، جو اختیار اور مرضی کا مالک ہوگا اور میری زمین پر جس کا خلیفہ ہوگا۔ ملکیت (استعمال) کرنے کا حق حاصل کرنا چاہے گا، ایسا کر سکے گا اور اپنی ضرورت کے مطابق اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکے گا، گویا وہ میری فطرت اور میرے استعمال کا ‘مظہر’ ہو گا۔ اور اتھارٹی.

فرشتے یہ سن کر حیران رہ گئے اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اگر اس شخصیت کی ولادت کی حکمت یہ ہے کہ وہ دن رات آپ کی حمد و ثنا میں مشغول رہے اور آپ کی ترقی اور لمبی عمر کے گیت گائے تو اس کے لیے ہم وہ حاضر ہیں جو ہر لمحہ تیری حمد و ثنا کرتے ہیں اور تیرے حکم کو بلا جھجک بجا لاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس ‘خاکی’ سے اختلاف اور اختلاف کی بو آتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ آپ کی زمین کو نقصان اور تباہی کا باعث بن جائے؟ اے اللہ! آپ کا یہ فیصلہ کس حکمت پر مبنی ہے؟

سب سے پہلے اسے خداؤں کی طرف سے بار بار یہ آداب سکھائے گئے کہ انسان کو خالق کے معاملات میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور اس کے بارے میں سچائی کے واضح ہونے سے پہلے شکوک و شبہات پیدا نہیں کرنا چاہیے اور وہ بھی اس طرح کہ آپ کی فضیلت اور عظمت کا پہلو سامنے آجاتا ہے، خالق کائنات ان حقائق کو جانتا ہے، جو آپ نہیں جانتے اور اس کے علم میں وہ سب کچھ ہے، جسے آپ نہیں جانتے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی تعلیم اور فرشتوں کی پہچان:

اس مقام پر فرشتوں کا سوال یہ نہیں تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں یا اس کے فیصلے پر معافی مانگیں، بلکہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش کی وجہ کیا ہے اور ان کو خلیفہ بنانے میں کیا حکمت ہے؟ اس کی خواہش یہ تھی کہ اس حکمت کا راز اس پر بھی آشکار ہو جائے، اس لیے اس کے فعل اور مقصد کی وضاحت میں کوتاہی پر اس کی سرزنش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے سوال کے جواب کو ترجیح دی، جو بظاہر ان الفاظ پر لکھا ہوا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔

عمل اور ناکامی کے ذریعے اس طرح دیا جائے کہ انہیں نہ صرف انسان کی عظمت اور بلندی اور اللہ کی حکمت کو تسلیم کرنا پڑے بلکہ ان کی اپنی غلبہ اور عزت بھی واضح طور پر شاہد ہو، اس لیے حضرت آدم علیہ السلام اس کی بہترین حالت اسے “علم” کی اعلیٰ درجہ کی فضیلت سے نوازا گیا اور اسے چیزوں کا علم عطا کیا۔

اور پھر فرشتوں کے سامنے حاضر ہو کر ارشاد فرمایا کہ تمہیں ان چیزوں کا کیا علم ہے؟ اسے علم ہی نہیں تھا، وہ کیسے جواب دیتا؟ لیکن وہ اللہ کے قریب تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارا امتحان مقصد کے لیے نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے ہمیں کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ ہم آزمائے جائیں، بلکہ اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ ‘دنیاوی خلافت کی بنیاد مشق ہے۔ اور تسبیح و تہلیل کا تزکیہ تمیز پر نہیں بلکہ اس معیار پر ہے جسے علم کہا جاتا ہے، کیونکہ نیت، اختیار، فطرت اور قدرت کا اختیار علم کے زمینی معیار کے بغیر ناممکن ہے۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے علم کے معیار کی علامت بنایا ہے اس لیے بلا شبہ وہ خلافت کی درخواست کا حقدار ہے۔

گویا حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی معرفت اس طرح نصیب ہوئی کہ فرشتوں کے پاس بھی ان کی حکومت اور خلافت کے حق کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اور انہیں یہ ماننا پڑا کہ یقیناً یہ صرف حضرت انسان ہی کے لیے ممکن ہے۔ زمین پر خلیفہ بننے کے لیے ان تمام حقائق، علم، علم اور تفریح ​​سے آگاہ ہوں اور خدا کی نعمتوں کا حق ادا کریں۔

حضرت آدم کا جنت میں قیام اور حوا کا بیٹا بننا:

حضرت آدم علیہ السلام طویل عرصے تک تنہا زندگی گزارتے رہے، لیکن آپ اپنی زندگی میں ایک عجیب و غریب خالی پن، راحت اور سکون محسوس کر رہے تھے اور آپ کی طبیعت اور طبیعت ایک راہب اور سادات کی یاد تازہ کر رہی تھی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا کو پیدا کیا اور حضرت آدم کو “اپنے برابر اور ساتھی” پا کر بہت خوشی ہوئی اور اپنے دل میں سکون محسوس کیا۔ حضرت آدم اور حوا کو جنت میں رہنے اور لطف اندوز ہونے اور اس میں موجود ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی لیکن ایک درخت کو نشان زد کیا گیا اور کہا گیا کہ اس میں سے نہ کھاؤ بلکہ اس کے قریب نہ جانا۔

آدم علیہ السلام کی جنت سے روانگی:

اب شیطان کو موقع ملا اور اس نے حضرت آدم و حوا کے دلوں میں یہ یقین ڈال دیا کہ یہ درخت جنت کا درخت ہے۔ اس کا پھل کھانے سے جنت میں دائمی سکون اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ضامن ہوتا ہے اور بیعت کرنے کے بعد ان سے فرمایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں نہ کہ تمہارا دشمن یہ سن کر اپنی انسانی اور جسمانی خواہشات میں پہلا خیال آیا: (غلطی) ظہر ادا کی اور بھول گئے کہ اللہ کا یہ حکم ضروری ہے نہ کہ خدا کی طرف سے مشورہ۔

آخرکار وہ جنت میں ہمیشہ کی زندگی کی تمنا اور اللہ کی موت کے جلال کے نشے میں مست ہو گیا اور اس نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ اس کے بعد ہی انسانی ضرورتیں ابھرنے لگیں۔ دیکھا، وہ ننگا اور کپڑوں سے خالی ہے۔ جلد ہی آدم اور حوا دونوں نے خود کو پتوں سے ڈھانپنا شروع کر دیا – گویا یہ انسانی تہذیب کا آغاز تھا کہ اس نے سب سے پہلے اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لیے پتوں کا استعمال کیا۔

یہاں کیا ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو گئے اور آدم علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے منع کرنے کے باوجود اس حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی؟ آخر آدم تو آدم ہی تھے، اللہ کی بارگاہ میں مقبول تھے، اس لیے اس نے شیطان کی طرح عبادت نہیں کی اور اپنی غلطیوں کو تاویلات کے پردے میں چھپانے کی فضول کوششوں سے باز رہے۔ میں نے پشیمانی اور شرمندگی کے ساتھ اعتراف کیا کہ غلطی ضرور ہوئی تھی، لیکن اس کی وجہ تکبر نہیں تھا، بلکہ بحیثیت انسان غلطی اور کوتاہی اس کی وجہ تھی، پھر بھی یہ غلطی تھی، اس لیے میں توبہ اور معافی مانگتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں۔ معاف کیا جائے.

اللہ تعالیٰ نے اس کا عذر قبول کر لیا اور اسے معاف کر دیا، لیکن وقت آ گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ کی زمین پر خلافت کے حق کا دعویٰ کریں، اس لیے حکمت کے تقاضے کے طور پر یہ بھی حکم دیا کہ آپ کو اور آپ کی اولاد کو ایک خاص مدت تک زمین پر قیام کرنا اور تمہارا دشمن ابلیس اپنی تمام عداوتوں کے ساتھ وہاں موجود ہو گا اور اس طرح تمہیں ملکوتی اور طاغوتی کی دو متحارب قوتوں کے درمیان رہنا پڑے گا۔

اس کے باوجود اگر آپ اور آپ کے بچے خالص اور سچے خادم اور سچے نائب ثابت ہو جائیں تو آپ کا اصل ملک “جنت” ہمیشہ کی طرح آپ کو ملے گا، اس لیے آپ اور حوا یہاں سے چلے جائیں اور میری سرزمین پر سکونت اختیار کریں۔ آپ کی تقدیر آپ کی زندگی تک عبودیت کے حقوق ادا کرتی رہے اور اسی طرح انسانوں کے باپ اور اللہ تعالی کے خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی شریک حیات حضرت حوا کے ساتھ اللہ کی زمین پر قدم رکھا۔

حضرت آدم علیہ السلام کے تذکرہ سے متعلق قرآنی آیات

قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کا نام پچیس آیات میں پچیس مرتبہ آیا ہے۔ اور انبیاء علیہ السلام کی پہلی تذکرہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی ہے جو درج ذیل آیات میں نقل ہوئی ہے:

سورہ بقرہ، اعراف، اسراء، کہف اور طہٰ میں اسم کو اسم اور صفات دونوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، سورہ حجر اور سعد میں صرف صفات کا ذکر ہے اور آل عمران، مائدہ، مریم اور یاسین میں صرف نام کا ذکر ہے۔ جمنی کی شکل میں

حضرت آدم علیہ السلام کی کہانی میں چند اہم اسباق (نصیحتیں

اگرچہ آدم علیہ السلام کے قصہ میں بے شمار نصیحتوں اور مسائل کا خزانہ موجود ہے اور اس مقام پر ان کا شمار ناممکن ہے، پھر بھی چند اہم آیات کی طرف اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

  1. اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت کے راز بے شمار اور لاتعداد ہیں اور ان تمام رازوں کو جاننا کسی بھی شخص کے لیے ناممکن ہے، خواہ وہ اللہ کی بارگاہ میں کتنی ہی عبادت کیوں نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے فرشتوں کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کو خلافت کی حکمت کا علم نہ ہوسکا اور وہ اس وقت تک حیران و پریشان رہے جب تک اس معاملے کی پوری حقیقت سامنے نہ آ گئی۔
  2. اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور توجہ کسی چھوٹی چیز کی طرف بھی ہو تو وہ اعلیٰ درجہ اور جلیل القدر منصب تک پہنچ سکتی ہے اور عزت و بزرگی کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔ مٹھی بھر راکھ کو دیکھو اور پھر اس کے اللہ کی بنائی ہوئی زمین کا خلیفہ ہونے کا مفہوم دیکھو اور پھر اس کی نبوت و رسالت کا مفہوم دیکھو، لیکن اس کی توجہ کا مفہوم رحمت و اتفاق یا اس کے بغیر نہیں ہے۔ حکمت بلکہ اس چیز کی ملکیت کے لیے مناسب حکمت اور مشورہ کے نظام سے منسلک ہے۔
  3. اگرچہ انسان کو ہر قسم کی عزت ملی اور ہر قسم کی بڑھاپے اور بزرگی سے نوازا گیا، پھر بھی اس کی فطری اور فطری کمزوریاں اپنی جگہ پر قائم ہیں اور انسان ہونے اور انسان ہونے کی وہ کمزوری اپنی جگہ پر قائم ہے۔ درحقیقت یہی وہ چیز تھی جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے بڑھاپے اور بڑے مرتبے کے باوجود ایسی غلطی کی اور وہ ابلیس کے زیر اثر آ گئے۔
  4. گناہ گار ہونے کے باوجود اگر انسان کا دل شرمندگی اور توبہ کی طرف مائل ہو تو اس کے لیے رحمت کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور اس مقام تک پہنچنے میں ناامیدی کی اندھی وادی نہیں ہوتی۔ بلاشبہ پاکیزگی اور نیکی شرط ہے اور جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی خطاؤں اور خطاؤں کی معافی کا تعلق اسی سے ہے، اسی طرح دنیا کی بخشش اور رحمت ان کی تمام اولادوں پر بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے

حضرت حوا کی پیدائش کیسے ہوئی؟

قرآن مجید میں اس کا صرف یہ ذکر ہے:
اور اسی سے (نفس) نے یہ جوڑا پیدا کیا۔ النساء 4:1

یہ قرآنی آیت حوا کی پیدائش کی تفصیل نہیں بتاتی، اس لیے دو چیزیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ حوا کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہوئی، جیسا کہ مشہور ہے اور بائبل میں بھی اس کا ذکر ہے۔ راستہ

دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو اس طرح پیدا کیا کہ انسان کے ساتھ ساتھ اپنے مادّہ سے ایک اور مخلوق بھی پیدا کی جسے عورت کہتے ہیں اور جو انسان کی جیون ساتھی بنتی ہے۔

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو بخاری و مسلم کی روایات میں یہ ضرور مذکور ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشہور محقق و ماہر علامہ قرطبی رح نے بیان کیا ہے کہ حقیقت میں عورت کی پیدائش کو پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے، یعنی اس کی حالت پسلی جیسی ہے۔ اس کے ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ ٹوٹ جائے گا، جس طرح پسلی ٹیڑھے ہونے کے باوجود استعمال ہوتی ہے اور اس کی ٹیڑھی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ نرمی اور نرمی سے پیش آنا چاہیے، ورنہ سخت رویہ خوشی کے بجائے رشتوں میں بگاڑ کا باعث بنے گا۔

اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت کی تفسیر کی تحقیق کرنے والوں کی رائے دوسری تفسیر کی طرف مائل ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن عزیز نہ صرف حوا کی تخلیق کا ذکر کر رہا ہے بلکہ ان کی تخلیق کی حقیقت بھی بیان کر رہا ہے۔ عورت یہ بتاتی ہے کہ وہ بھی مرد کی ہے اور اسی طرح بنائی گئی ہے۔

فرشتہ

قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں نہ تو فرشتوں کی طبعی حقیقت بتائی گئی ہے اور نہ ہی وہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ہمارے لیے ایمان اور یقین کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ہم اس کے وجود کو تسلیم کریں اور اسے خالق حقیقی کے طور پر جانیں۔

جنی

اسی طرح ‘جن’ بھی اللہ تعالیٰ کی براہ راست مخلوق ہیں جن کی پیدائش کی حقیقت ہمیں پوری طرح سے معلوم نہیں اور نہ ہی وہ عام انسانوں کی طرح ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان مخلوقات کے بارے میں جو تفصیلات بتائی ہیں ان سے ہمارے لیے یہ یقین اور یقین ضروری ہے کہ یہ بھی انسانوں کی طرح قابل مخلوق ہیں اور ان کی طرح وہ بھی قانون پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں تخلیق اور نشوونما کا عمل ہے اور ان میں اچھائیاں بھی ہیں۔

ابلیس یا شیطان

قرآن کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بھی اسی نسل سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ ‘جن’ اور ابلیس (شیطان) نے خود اللہ کے سامنے اقرار کیا کہ وہ (آگ) سے پیدا ہوا ہے۔

To be Continue….

کائنات کی پیدائش اور پہلا انسان / The Birth Of The Universe And The First Human.

20240712 071903

Views: 74

تمحید

قرآن کریم ان تاریخی واقعات کو صرف اس لیے بیان نہیں کرتا کہ یہ ایسے واقعات ہیں جنہیں تاریخ میں لکھنا ضروری ہے، بلکہ اس کا ایک ہی مقصد ہے، وہ یہ ہے کہ ان واقعات سے پیدا ہونے والے نتائج کے ذریعے انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی فراہم کی جائے۔ اور اس کے لیے سبق اور انسانی ذہانت اور روح سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قوانین فطرت کے سانچے میں ڈھلے ان تاریخی نتائج سے سبق سیکھیں۔

اور یقین رکھو کہ اللہ کا وجود ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور یہ قدرت کا ہاتھ ہے جو اس کائنات پر قابض ہے اور فلاح و نجات اور ہر قسم کی ترقی کا راز اس دین کے احکامات پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے، جس کا نام ہے ” دین فطرت’ یا اسلام؟

پہلا آدمی

قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں جو حقائق بیان کیے ہیں ان پر تفصیل سے بحث کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آج دنیا میں انسان کے وجود میں آنے کا مسئلہ سائنسی نقطہ نظر سے بحث کا ایک نیا دروازہ کھولتا ہے یعنی ارتقاء (Evolution)۔ ڈیولپمنٹ) کا دعویٰ ہے کہ موجودہ انسان اپنی ابتدائی پیدائش سے انسان نہیں بنا بلکہ اس نے موجودہ کائنات میں کئی مراحل کو اپنا کر موجودہ انسانی شکل حاصل کی، کیونکہ زندگی کا آغاز مختلف قسم کے کنکروں، پتھروں، درختوں سے ہوا۔ اور پودوں کی مختلف شکلیں اپناتے ہوئے اور ہزاروں لاکھوں سالوں کے بعد، ایک وقت میں ایک سطح پر ترقی کرتے ہوئے، اس نے پہلے لیبونا (پانی کی جونک) کا لباس پہنا اور پھر اتنے عرصے کے بعد، مختلف چھوٹی بڑی تہوں سے گزرنے کے بعد۔ جاندار، وہ موجودہ انسان بن گیا۔

اور مذہب کہتا ہے کہ خالق کائنات نے سب سے پہلے انسان کو حضرت آدم علیہ السلام کی شکل میں پیدا کیا اور پھر حوا کو وجود دے کر ان جیسی ہم شکل مخلوق کو دنیا میں نسل انسانی کا تسلسل قائم کیا اور یہ ہے۔ وہ انسان جسے خالق کائنات نے تمام مخلوقات پر وراثت اور بڑھاپے سے نوازا اور اسے اللہ کی امانت کا بھاری بوجھ سونپا اور پوری کائنات کو اس کے ہاتھ میں دے کر اس کو اس کی ذات کا اعزاز بخشا۔ خلیفہ اور زمین کا سردار

بلاشبہ ہم نے انسانوں کو شاندار طریقے سے پیدا کیا ہے۔

بے شک ہم نے آدم کی نسل کو بڑھاپا اور ساری کائنات پر اختیار عطا کیا ہے (قرآن 17)۔

میں (اپنی) ایک منفرد زمین بنانے جا رہا ہوں۔ البکر: 2:30

ہم نے آسمانوں اور زمین پر امانت کا بوجھ پیش کیا تو انہوں نے (یعنی ساری کائنات) اللہ کی امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس بھاری بوجھ کو اٹھا لیا۔ الاحزاب 33:72

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آیا ارتقاء اور مذہب کے درمیان اس خاص مسئلے میں کوئی سائنسی تضاد ہے یا مصالحت کی گنجائش ہے، خاص طور پر جب علم اور تجربے نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ مذہب اور مذہبی حقائق اور علم کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ معاملہ۔ اگر سطح پر کوئی ایسی چیز نظر آئے تو بھی نظر آتی ہے کیونکہ علم کی حقیقتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔

کیونکہ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب بھی علم کی پوشیدہ سچائیوں سے پردہ اٹھایا گیا اسی وقت وہ بھی آشکار ہوا اور وہی سچائی سامنے آئی جو وحی الٰہی سے ظاہر ہوئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں اگر کسی وقت علم اور دین کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جائے تو اس کے نتیجے میں علم کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑی اور اللہ کی وحی کا فیصلہ اپنی جگہ پر قائم رہا۔

اس بنیاد پر یہ سوال فطری طور پر سامنے آتا ہے کہ اس خاص مسئلے کی اصل صورت حال کیا ہے اور کیسی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی علم اور مذہب میں کوئی تصادم نہیں ہے، البتہ چونکہ یہ مسئلہ اپنے اندر باریک اور پراسرار چیزیں رکھتا ہے، اس لیے یہ حقیقت ہمیشہ سامنے رہے کہ پہلا انسان، یعنی آدم علیہ السلام باپ ہیں۔ موجودہ انسانی نسل، چاہے وہ ارتقاء کے نقطہ نظر کے مطابق قدم بہ قدم انسانی شکل میں پہنچی ہو یا تخلیق کے آغاز میں ہی انسانی شکل میں وجود میں آئی ہو، سائنس اور مذہب دونوں اس بات پر متفق ہیں۔ موجودہ انسان اس کائنات کی بہترین مخلوق ہے۔

اور عقل و فہم کا ڈھانچہ اس کے افعال و کردار کا ذمہ دار ہے اور رواج و قانون کے خلاف ہے یا اس طرح یوں سمجھ لیجئے کہ انسانی کردار اور اس کے علم و عمل اور اس کے اخلاقی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چیز کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اہمیت یہ ہے کہ اس کی پیدائش، ڈھالنے اور وجود کی دنیا میں آنے کی تفصیلات کیا ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اس پیدا ہونے والی دنیا میں اس کا وجود محض بے معنی اور بے مقصد ہے یا اس کی شخصیت اپنے اندر ایک بہت بڑے مقصد کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ . کیا اس کے افعال، الفاظ، کردار اور بول چال (اعمال، الفاظ، کردار و سلوک) کے اثرات بہت نمایاں ہیں؟ کیا اس کی الٰہی اور روحانی فطرتیں سب بے کار اور بے نتیجہ ہیں یا وہ کریمی پھلوں سے لدے اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں؟ اور کیا اس کی زندگی اپنے اندر کوئی روشن اور واضح حقیقت رکھتی ہے اور ایک تاریک مستقبل (مستکربل) کی جھلک دیتی ہے اور اس کا ماضی اور حال اس کے مستقبل کو نہیں جانتا؟

اگر ان حقائق کا جواب ‘نہیں’ نہیں بلکہ ہاں میں ہے! پھر یہ بات فطری طور پر ماننی پڑتی ہے کہ اس کی تخلیق کے حالات پر بحث کی جائے، اس کے وجود کے مقصد کو سامنے رکھا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ مخلوقات میں سے بہترین شخصیت کا وجود بلاشبہ ایک بڑے مقصد کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اس لیے اس کے اخلاقی مراکز میں یقینی طور پر کوئی نہ کوئی ‘مسلے آلا’ (بڑی نظیر) اور ان کی تخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے انسان کے مثبت اور منفی ہر پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے انسانی شخصیت کی عظمت کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کائنات کے خالق و مالک کی فطرت میں انسان کی تخلیق کو اس کی ذات میں شامل کیا گیا ہے۔ ‘بہترین’ کا درجہ اور اسی وجہ سے وہ پوری کائنات کے مقابلے میں “عظیم اور عظیم” ہونے کا مستحق ہے اور اپنے اعمال اور طریقوں کی وجہ سے وہ “خلیفہ زمین” کے عہدے پر رہنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اللہ کی امانت کا علمبردار ہو کر اس کے حقوق ہیں اور جب یہ سب کچھ اس میں موجود ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی ذات بے مقصد اور بے نتیجہ رہ جائے۔

کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ وہ بغیر کسی مقصد کے ترک کر دیے جائیں گے؟ القیام: 75:36

اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ذہانت اور ہمت کے پیکر کو پوری کائنات کا نمائندہ بنایا جائے اور نیکی اور بدی کے اصول سکھائے جائیں اور برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کا ذمہ دار بنایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے اچھے اور برے کی راہ دکھائی۔ طہٰ 20:50

پھر ہم نے انسان کو نیکی اور بدی کے دونوں راستے دکھائے۔ البلاد 90:10

قرآن مجید کا ذکر اور نیکی کرنے اور برائی سے روکنے کی دعوت اور ہدایت و رہنمائی اور ابتدا و انتہا، مرکز محبت صرف یہی ہستی ہے جسے انسان کہتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے پہلے انسان کی تخلیق کے حالات اور تفصیلات کو نظر انداز کیا ہے اور صرف اس کی ابتدا اور انتہا کو اہمیت دی ہے۔

حبشہ کا حجرہ Habsa Ki Hizrat

Picsart 24 07 12 09 22 59 568

Views: 46

حبشہ کا حجرہ
کفار مکہ کو بگاڑ کر چلے گئے تھے۔ جاتے ہی اس نے ان تمام لوگوں سے کہا جو اس کا انتظار کر رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صلح کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم نے ابو طالب کے سامنے حجت مکمل کی۔ انہوں نے ابو طالب سے کہا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں، ورنہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ ہم نے انہیں غور کرنے کے لیے کل تک کا وقت دیا ہے۔ اگر وہ اپنے بھتیجے کو سمجھائے اور وہ ہمارے معبودوں کی مخالفت سے باز آجائے تو ٹھیک ہے، ورنہ محمد پر، مسلمانوں پر اور ان کی حمایت کرنے والوں پر اتنی سختی کر کہ ان کا جینا مشکل ہوجائے۔ اعلان کرو کہ محمدﷺ خانہ کعبہ میں داخل نہ ہوں، محمد جہاں بھی جائیں، بازار ہو، سڑک ہو، ہر جگہ اس کے پیچھے چلو، اسے مسلمانوں اور اسلام کو برا بھلا نہ کہو۔ مسلمانوں کے خدا کو برا کہو، محمد کو برا کہو۔ لڑکوں کو ہر مسلمان پر مٹی، اینٹ، پتھر پھینکنے پر اکسائیں، ان لوگوں پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں اتنا ستاتے ہیں کہ وہ نیا مذہب چھوڑ کر ہمارے معبودوں کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ بات پسند آئی اور وہ ایسا کرنے پر راضی ہو گئے۔
کچھ عرصے کے بعد یہ مجلس بتوانست بن گئی۔ لوگ اٹھ کر اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔
دوسرا دن آیا لیکن ابو طالب کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ یہ سمجھا گیا کہ نہ محمد تبلیغی سے باز آئیں گے اور نہ ابو طالب اسے چھوڑیں گے۔
پھر کیا ہوا، غنڈوں، بدمعاشوں اور بھٹکے ہوئے سپاہیوں کے بہت سے گروہ بن گئے اور انہوں نے شہر کے ہر حصے میں مسلمانوں کو ستانا شروع کر دیا۔
حضرت زبیرؓ بازار گئے۔ غنڈے پہلے سے ہی تلاش میں تھے اور ان کا پیچھا کرنے لگے۔

لڑکے بھی شامل ہو گئے۔ تالیاں بجانے، راکھ اڑانے اور پتھر پھینکنے لگے۔ حضرت زبیر جوان تھے، غصے میں آگئے۔ تم نے لڑکوں کو ڈانٹا۔ پھر کیا ہوا، جو پیپ پک رہی تھی وہ پھٹ گئی اور آوارہوں اور بدمعاشوں کا ہجوم آنے لگا۔ سب نے حضرت زبیر کو گالیاں اور گالیاں دینا شروع کر دیں۔ حضرت زبیر نے معاملے کی سنگینی کو سمجھا اور خاموشی سے واپس آگئے۔
اس دن نہیں، ہاں اگلے دن جب مسلمان خرید و فروخت کے لیے گھروں سے نکلے تو بدمعاشوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا، گالیاں دیں، ان پر راکھ پھینکی، ان پر پتھر برسائے اور ان کے کپڑے کھینچ کر پھاڑ ڈالے۔
مسلمانوں کو بھی برا لگا لیکن وہ کمزور تھے، وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے تھوڑی سی بھی بات کی تو انہیں مار مار کر قتل کردیا جائے گا۔ وہ صبر کرنے پر مجبور ہوئے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
پھر یہ سلسلہ گالیوں اور مار پیٹ کی حد تک نہیں گیا بلکہ ان بدمعاشوں نے سڑک سے بڑے بڑے پتھر اٹھا کر گھروں میں پھینکنا شروع کر دیا۔ گندگی پھیلانے لگی۔ مسلمان سخت پریشان تھے۔ انہوں نے اپنے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔
حضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خانہ کعبہ شریف میں نماز پڑھتے تھے۔ آوارہ لڑکوں اور بدمعاشوں نے آپ کو دیکھا۔ ریوڑ کے جھنڈ آپ کے پیچھے چلتے ہیں۔ لڑکوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آپ کی بے عزتی کرتے، ہاں انہوں نے قریشی لیڈروں کو حرم شریف کے دروازے پر کھڑے پایا۔ جب وہ دروازے سے داخل ہونے لگے تو ابو سفیان نے انہیں روک لیا۔ ابوجہل نے کہا محمد! آج سے حرم شریف تمہارے لیے بند ہے۔ تم ہمارے معبودوں کی عبادت کے لائق نہیں ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوجہل! دن بہ دن تم گمراہی اور شرک میں مزید پختہ ہوتے جا رہے ہو میں کعبہ میں تمہارے جھوٹے معبودوں کی عبادت کے لیے نہیں جاتا بلکہ اس لیے کہ وہ مقام محمود ہے۔ یہ ہمارے اور آپ کے دادا حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا بنایا ہوا گھر ہے، یہ خدا کا گھر ہے، میں خدا کے حضور نماز پڑھنے جاتا ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے روکے۔
ابوجہل نے ہنستے ہوئے کہا، تمام قریش کے سرداروں کی رائے ہے کہ مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ حرم شریف

تمام مسلمانوں پر دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے، اب کوئی مسلمان داخل نہیں ہو سکے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم مجھے خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہونے دو گے؟
ابوجہل نے غصے سے کہا بالکل نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں نہ روکوں تو کیا ہوگا؟ ابو سفیان بھی ان سرداروں میں موجود تھا، اس نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور کہا: مجھے خدا کی قسم! یہ آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

دروازے کی طرف بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، پھر تم تلوار استعمال کرو، اللہ میری مدد کرے گا۔

ابوجہل کو ڈر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حرم میں داخل ہوں گے۔ اس نے سامنے کھڑے اسٹیج کی طرف دیکھا اور کچھ اشارہ کیا۔ فوراً بدمعاش آگے آئے۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا شروع کر دی اور پیچھے دھکیل دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔

اس دن مسلمانوں کے لیے حرم کے دروازے بند کر دیے گئے۔
اب کفار مکہ نے تمام مسلمانوں پر اس قدر ظلم ڈھانا شروع کر دیا کہ ان کے لیے گھروں سے نکلنا، کاروبار کرنا، زندگی کی ضروری چیزوں کی خرید وفروخت مشکل ہو گئی۔ جب کھانا میسر نہیں تو کھانا کیسے ملے گا؟ لوگ بھوکے رہنے لگے۔ اس سے آپ کو بہت پریشانی ہوئی، اس لیے آپ سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا ہے۔

یہاں غیرت مند مسلمانوں نے کفار سے لڑنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کے حکم کے بغیر جنگ کی اجازت نہیں دے سکتا۔ مشکلات کو صبر اور شکر کے ساتھ برداشت کیا۔ اس وقت خدا ہمارا امتحان لے رہا ہے۔ ہمیں اس امتحان میں مکمل طور پر پیش ہونا چاہیے۔ لوگ خاموش ہو گئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابی تھے، بہت غیرت مند تھے۔ جب آپ نے سنا کہ مسلمانوں کو حرم مطہر میں بلند آواز سے قرآن شریف پڑھنے اور نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے تو آپ پر جوش آگیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں حرم مطہر میں جا کر خدا کا کلام پڑھوں گا۔

مسلمانوں نے وضاحت کی کہ کفار دشمنی پر تلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ آپ کے پیروکار محرم میں جا کر اونچی آواز میں قرآن شریف پڑھنے کو برداشت نہیں کر سکیں گے، وہ آپ کو ضرور ماریں گے، اس لیے ابھی خاموش رہیں۔ جب اللہ کا حکم ہو گا تو کیا آپ سب کعبہ جا کر اونچی آواز میں قرآن شریف پڑھیں گے؟

  • حضرت عبداللہ نے فرمایا، میرا دل نہیں مانتا کہ کفار مکہ حرم میں جائیں اور بتوں کی پوجا کریں، ہم وہاں قرآن شریف بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، چاہے وہ مجھے قتل کر دیں، میں آج خود وہاں جا کر قرآن پڑھوں گا۔ شریف

مسلمان بہت پریشان تھے۔ جانتا تھا کہ اس وقت عبداللہ قرآن شریف کی تلاوت کرے گا۔ کافر انہیں فوراً قتل کر دیں گے۔
اسلام نے مسلمانوں میں محبت پیدا کی۔ سب نے سمجھایا، عبداللہ خاموش ہوگیا۔

مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ اپنا ارادہ ترک کر چکے ہیں، اس لیے کسی نے ان کی نگرانی نہیں کی، لیکن عبداللہ گھات میں رہے اور موقع ملتے ہی حرم شریف پہنچے، لیکن اس رکاوٹ کے باوجود وہ مکہ ابراہیم کے پاس گئے۔ اور وہیں کھڑے ہو کر بہت اچھی آواز میں سورہ رحمن کی تلاوت کرنے لگے۔

جب کفار مکہ نے رحمن کا نام سنا تو وہ بہت پریشان ہوئے اور جب انہوں نے سنا کہ ستارے اور درخت اس کو سجدہ کرتے ہیں تو انہوں نے اسے دیوتاؤں کی توہین سمجھا، ان کے خیال میں صرف ان کے معبود ہی اس سجدہ کے لائق تھے۔

وہ بگڑ گئے۔ سب لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کے منہ پر گھونسے، لاتیں اور تھپڑ مارنے لگے، لیکن عبداللہ نے ان کی ماروں کی بھی پرواہ نہ کی اور انہیں مارتے رہے۔
اس پر کفار مکہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے آپ کا چہرہ نوچ لیا۔ اس نے آپ کے گالوں پر اتنا زور سے گھونسا مارا کہ آپ کا چہرہ خون آلود ہو گیا۔
جب حضرت عبداللہ سورہ رحمٰن سے فارغ ہوئے تو واپس تشریف لائے لیکن اس فخر کے ساتھ کہ ان کے سارے کپڑے پھٹ گئے، چہرہ خون آلود تھا۔ گھر پہنچ کر آپ نے کپڑے بدلے، منہ دھویا، زخموں پر مرہم لگایا اور چپ چاپ بیٹھ گئے۔

کفار قریش نے بھی لوگوں سے کہا تھا کہ وہ شخص جو

زور سے قرآن پڑھو، اسے مارو۔ اگر کوئی گھر میں پڑھ رہا ہو تو اس کے گھر میں داخل ہو کر اسے مارو یہاں تک کہ وہ قرآن پڑھنا چھوڑ دے۔

کفار نے اس پر سختی سے عمل شروع کر دیا۔ وہ مسلمانوں کے گھروں کے قریب گھات لگا کر کھڑا رہتا تھا تاکہ جب وہ قرآن شریف بلند آواز سے پڑھتے تو فوراً ان کے گھروں میں گھس کر قتل و غارت گری کرتے۔
حضرت ابوبکرؓ قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ وہ بڑا آدمی تھا۔ جب وہ مسلمان ہوا تو اس کے پاس چالیس ہزار درہم نقد تھے۔ نوکر، لونڈیاں اور لونڈیاں تو بہت تھیں لیکن وہ بھی کفر کے خوف سے بلند آواز سے قرآن نہیں پڑھتی تھیں۔
اس طرح مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو سب خطرے میں پڑ گئے۔ اب ان کی زندگی واقعی مشکل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے گھروں میں بھوکے پیاسے بیٹھے رہے۔

یہ حالت دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کو ہجرت کا حکم دیا۔ اس حکم سے مسلمان بہت خوش ہوئے۔
اس وقت حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا۔ اس کا نام سہامہ تھا۔ عرب اسے نجاشی کہتے تھے۔
کیونکہ مسلمان جانتے تھے کہ کفار انہیں آسانی سے مکہ کی طرف ہجرت نہیں کرنے دیں گے، وہ انہیں ضرور روکیں گے۔ اس لیے اس نے چپکے سے تیاریاں شروع کر دیں۔ جب تیاریاں مکمل ہوئیں تو ایک دن رات جب کفار سو رہے تھے تو وہ چپکے سے مکہ سے نکل کر جدہ کی طرف روانہ ہوگیا۔
رجب کے مہینے 05 نبوی میں یہ چھوٹا سا قافلہ اپنے پیچھے اپنے گھروں، رشتہ داروں اور دوستوں کو چھوڑ کر روانہ ہوا۔ اس چھوٹے سے قافلے میں صرف بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔

مردوں میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ بن عتبہ، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبداللہ بن عوف، حضرت ابو سلمہ مخزومی، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت آمنہ بن ربیعہ، حضرت ابوہریرہ۔ ہریرہ بن طالب حضرت سہیل بن بزار تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی رقیہ، حضرت عثمان بن عفان کی زوجہ حضرت سہلہ، حضرت ام سلمہ، حضرت لیلیٰ رضی اللہ عنہا شامل تھیں۔

مہاجرین کا یہ پہلا قافلہ تھا جس نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
،

Karbala Ka Waqia- Incident of Karbala

Picsart 24 07 12 09 23 44 366

Views: 32

جب 60 ہجری میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا اور یزید ان کا جانشین بنا تو اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی ان کے لیے سب سے اہم مسئلہ حضرت سیدنا امام حسینؓ، حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کا تھا۔ عمر نے حلف اٹھانا تھا۔ کیونکہ ان حضرت نے امیر معاویہ کا وعدہ یزید کے حوالے نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ یزید کو ان حضرت سے یہ خطرہ بھی تھا کہ ان میں سے کوئی خلافت کا دعویٰ کر سکتا ہے اور پورا حجاز مکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا، جبکہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا۔ عراق میں بھی بغاوت کا قوی امکان۔

Imaam Husain Raji. Ko Yajeed Ka Bait Naamanjoor.

ان وجوہات کے علاوہ یزید کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اس کی حکمرانی اور اس کی حفاظت کا تھا، اس لیے اس نے حضور سے بیعت لینا ضروری سمجھا۔ چنانچہ اس نے مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خبر دی اور حضورؐ سے بیعت لینے کا سخت حکم بھی بھیجا۔ ولید نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت سیدنا امیر معاویہ کی وفات کی خبر دی اور یزید کی بیعت کی درخواست کی۔ تعزیت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ جیسا شخص اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا اچھا ہے۔ بہتر ہو گا کہ آپ باہر آئیں اور عام لوگوں کو اور ان کے ساتھ ہمیں بھی دعوت دیں۔

یزید کی بیعت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو سخت ناپسند تھی کیونکہ وہ اہل نہیں تھے اور ان کی تقریر بھی خلفائے راشدین کے اسلامی طریقہ امتحان کے بالکل خلاف تھی۔ اس لیے آپ اس کے خلاف محتاط تھے اور دوسری طرف حالات آپ کو علی الاعلان اس کے خلاف آواز اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں آمد کی خبر سن کر لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر زیارت کا شرف حاصل کرنے لگے۔

Story of Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam and a Camel

Picsart 24 06 29 14 07 02 222

Views: 21

حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہ انور کے پاس اس طرح کھڑا ہو گیا جیسے ہمارے کان میں کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اونٹ اگر سچے ہو تو سلامت رہ۔

پھر آپ کا رب آپ کو فائدہ دے گا کہ آپ جھوٹے ہیں تو آپ کو ہماری پناہ میں آئے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پناہ میں رکھے گا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی۔ السلام علیکم، یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ اونٹ کے مالکوں نے اسے مارنے اور کھانے کا ارادہ کیا تو وہ ان کے پاس سے بھاگ گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مدد طلب کی جب میں نے دیکھا کہ اس اونٹ کے مالک دوڑ پڑے وہ آ رہا ہے، دوبارہ سر سرہ مبارک کے پاس کھڑا ہونا اب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا،

اس کے مالکوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہمارا ہے، یہ تین دن سے ہم سے بھاگ رہا ہے اور آج ہم نے اسے آپ کی خدمت میں پایا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا وہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ برسوں پلا بڑھا ہے۔ جب موسم گرم ہوتا تو آپ گھاس اور چارہ لے کر اس پر سوار ہو جاتے اور جب موسم سرد ہو جاتا تو آپ اس پر سوار ہو کر گرم علاقوں کی طرف جاتے جب کہ اب یہ بوسیدہ ہونے کی عمر کو پہنچ چکا ہے تو آپ اسے پکڑ لیں گے۔

اور گوشت کھانے کا فیصلہ کر کے اس نے خدا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھائی۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ایک نیک بندے کے مالک کی طرف سے سزا ہے جس نے خدمت کی ہے، اب ہم اسے فروخت نہیں کریں گے اور نہ ہی کریں گے۔ اس کے بعد اسے نگل لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ چند درہم میں خریدا اور فرمایا کہ اے اونٹ تو اللہ کے لیے آزاد ہے اس اونٹ نے اپنا منہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی طرف لایا اور پھر آواز دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا، اس نے دوبارہ دعا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آمین کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دعا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آمین کہا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی بار دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو تھے۔ آنکھیں بہنے لگیں اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اٹھو، کیا کہہ رہے ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار کہا کہ اللہ آپ کو اسلام اور قرآن سے بہترین فیصلہ دے، میں نے کہا کہ اللہ آپ کی امت سے قیامت کے دن اسی طرح خوف دور کرے۔ جیسا کہ آپ نے اسے مجھ سے ہٹا دیا، پھر آپ نے دعا کی کہ اللہ آپ کی امت کے خون کو دشمنوں سے بچائے۔ اس لیے کہ میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا مانگی تھی، پہلی تین دعائیں قبول ہوئیں لیکن آخری دعا قبول نہیں ہوئی۔ جب جبرائیل علیہ السلام نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں لڑ کر فنا ہو جائے گی، جو کچھ ہونے والا ہے، قلم نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں لکھ دیا ہے۔ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) لکھا ہے کہ آج کے دور پر نظر ڈالی جائے تو بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان کیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں، کیسے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے تیار ہیں، فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن چکے ہیں، شاید کفار نے مسلمانوں کا اتنا نقصان نہیں کیا جتنا مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے۔ فرقہ واریت ختم کریں، ایک امت بنیں اور باہمی نفرتیں ختم کریں، مسلمان مسلمان بھائی ہیں، آپس میں پیار اور محبت رکھیں، اللہ ہم سب کو سمجھنے اور رحمدل ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔