Views: 33
قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کے نام نہیں بتائے ہیں، صرف “آدم کے دو بیٹے” کہہ کر متن کو چھوڑ دیا ہے، حالانکہ تورات میں ان کے نام درج ہیں۔
بعض روایات میں ان دونوں بھائیوں کے درمیان ان کی شادیوں کے حوالے سے شدید اختلاف کا ذکر ہے۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے حضرت آدم علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں اپنی اپنی اپنی قربانیاں اللہ کے حضور پیش کریں۔ جس کی قربانی قبول ہو وہی اس کی نیت پوری کرنے کا حقدار ہے۔
قابیل اور ہابیل کا قول
جیسا کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کا الٰہی طریقہ یہ تھا کہ ہدیہ اور قربانی کی چیز کسی اونچی جگہ پر رکھ دی جاتی تھی اور آسمان سے آگ نمودار ہو کر اسے جلا دیتی تھی۔
اس قانون کے مطابق ہابیل نے اپنے ریوڑ میں سے ایک بہترین بیل اللہ کے حضور پیش کیا اور قابیل نے اپنے کھیتی باڑی میں سے ایک بیل قربانی کے لیے پیش کیا۔ اس عمل سے دونوں کے اچھے اور برے ارادوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حسب دستور آگ نے آکر ہابیل کی آنکھیں جلا دیں اور اس طرح قربانی کے قبول ہونے کا شرف اس کے حصے میں آیا۔ قابیل کی یہ توہین کسی طرح بھی برداشت نہ ہوسکی اور اس نے غصے میں آکر ہابیل سے کہا کہ میں تجھے قتل کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا تاکہ تیری خواہش پوری نہ ہو۔
ہابیل نے جواب دیا
‘میں تم پر کسی صورت ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، باقی وقت، تم جو چاہو کرو۔ جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو اللہ کے ہاں نیک نیت ہی قبول ہو سکتی ہے۔ وہاں نہ برے ارادوں کی دھمکیاں اور نہ ہی غیر ضروری غم و غصہ کام آ سکتا ہے اور اس پر قابیل کو بہت غصہ آیا اور اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔
قرآن کریم میں نہ تو نکاح سے متعلق کوئی اختلف کا ذکر ہے اور نہ ہی ان دونوں کے ناموں کا ذکر ہے، صرف قربانی (نذر) کا ذکر ہے اور اس روایت سے بڑھ کر یہ ہابیل کی تدفین سے متعلق ایک اضافہ ہے۔ مردہ جسم۔
قتل کے بعد قابیل سوچ رہا تھا کہ اس لاش کا کیا کیا جائے؟ آج تک آدم علیہ السلام کی نسل کو موت کا سامنا نہیں ہوا تھا اور اسی لیے حضرت آدم علیہ السلام نے میت کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک کوے نے زمین نوچ کر گڑھا کھودا ہے۔ یہ دیکھ کر قابیل نے خبردار کیا کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی ایسا ہی گڑھا کھود لے اور بعض روایات میں ہے کہ کوے نے اس گڑھے میں ایک اور مردہ کوے کو چھپا دیا۔
جب قابیل نے یہ دیکھا تو اسے اپنی فضول زندگی پر بہت افسوس ہوا اور کہا کہ میں بھی اس جانور سے گزرا ہوں اور مجھے اپنے اس جرم کو چھپانے کی شرافت بھی نہیں ہے۔ اس نے شرمندگی اور ندامت سے سر جھکا لیا اور پھر اسی انداز میں اپنے بھائی کی لاش کو زمین پر دے دیا۔ اس واقعہ کے بیان کے بعد قرآن کریم کہتا ہے:
اسی لیے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے ایک جان کو اپنی جان کے بدلے یا مصیبت میں ڈالنے کے لیے قتل کیا گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا گویا اس نے تمام لوگوں کے لیے زندہ کر دیا سورہ مائدہ 5:32۔
امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی اس دنیا میں کوئی ظلم سے مارا جاتا ہے تو اس کا قصور ضرور حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابل) کی گردن پر ہوتا ہے، کیونکہ وہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ایک ظالمانہ قتل شروع کیا اور اس ناپاک سنت کو جاری کیا۔
لکھنے کی جگہ
سورہ مائدہ کی متذکرہ آیت اور مذکورہ بالا حدیث ہم پر یہ حقیقت بتاتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ ایجاد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کائنات کا ہر شخص اس بدعت کا ارتکاب بھی کرے گا۔ اکرام، تو وہ شخص جس نے بدعت کی بنیاد رکھی وہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہو گا اور ایجاد کرنے والے ہونے کی وجہ سے ابدی ذلت اور نقصانات کا حقدار ہو گا۔ [نعوذ باللہ من ذالک]
(حضرت آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کا ذکر سورہ مائدہ میں آیا ہے۔)
To Be Continue…..